پاکستان کا پہلا لاپتہ کیا گیا سیاسی کارکن
Reading Time: 2 minutesشرمین بخاری
30 اگست دنیا میں جبری لاپتہ کیے گئے افراد کا عالمی دن ہے۔ یہ دن پاکستان کے پہلے اس لاپتہ شخص کے گئے شخص کے نام جس کے اجداد مسلمانوں کے حقوق اور بعد میں الگ ملک کے جدوجہد کرنے والی پارٹی مسلم لیگ کے بنانے والوں میں سے تھے۔
مسلم لیگ کے پہلے آرگنائزر نواب محسن الملک کے نواسے حسن ناصر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متحرک رکن تھے۔ ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ اور یہاں بائیں بازو کی سیاست میں بڑا نام پیدا کیا۔ مزدوروں اور طلبہ کی سیاست میں مقبول ہوئے۔ وہ 1928 میں پیدا ہوئے تھے۔
حیدر آباد دکن کی نواب فیملی میں پیدا ہونے والے حسن ناصر نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور وہاں ان کی ملاقات مارکسسٹ پارٹی کے لوگوں سے ہوئی۔
حسن ناصر ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے جنرل ایوب کے 1958 کے مارشل لا اور اس کے آمرانہ اقدامات پر سخت تنقید کی۔ 13ستمبر 1960 کو حسن ناصر کو کراچی کی ایک کچی آبادی سے گرفتار کیا گیا۔ انہیں لاہور کے شاہی قلعے میں قائم عقوبت خانے میں قید کرکے شدید اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔
13 نومبر کو وہ بدترین تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے شھید ہوگئے ۔ 4 دسمبر کو ان کی لاش والدہ کے سپرد کی گئی تو حسن ناصر کی ماں نے اپنے بیٹے کی تشدد زدہ لاش کو یہ کہہ کر پہچاننے سے انکار کر دیا کہ یہ کسی اور میت ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ ہیرو صرف 32 برس کی عمر میں قتل کیا گیا۔
حسن ناصر کی طرح دیگر ہزاروں بھی ایوب خان کے بدترین مارشل لا کی نذر ہوگئے مگر وہ سب گمنام ہیرو ہیں۔ لاپتہ ہونے والوں میں سے اکثر کا قصور جمہوریت کی بحالی، مظلوم اور محکوم افراد کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہوتا ہے۔
1947 سے لے کر آج تک پاکستان پر قابض ایک مخصوص طبقے کے لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر اپنے ہی ملک کے لاکھوں لوگوں کو لاپتہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں، سنسان راستوں پر پھینکے جانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
بس فرق یہ پڑتا کبھی اس کی رفتار دھیمی پڑ جاتی تو کبھی تیز ہوجاتی۔ آج بھی ہزاروں کی تعداد میں پشتون، بلوچ، سندھی لاپتہ ہیں۔
کچھ مایوس ہوکر ریاست سے باغی ہوگئے تو کوئی اب بھی ریاست کو ماں سمجھ کر اس سے امید لگائے دیکھ رہے ہیں۔
اس وقت بھی اپنے علاقے اور لوگوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے عوام کے دو منتخب نمائندے جیل میں ہیں اور ان سے دہشت گردوں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔