کالم

اسیر خانہ

دسمبر 23, 2019 4 min

اسیر خانہ

Reading Time: 4 minutes

سدرہ سعید

اللہ تعالی کی پیدا کی گئی ہر مخلوق فطری طور پر آزاد ہے مگر حضرت انسان نے اپنی تفریح طبع یا کسی جگہ ضرورت کے لیے جانوروں اور پرندوں کو قید کرنا شروع کیا۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ایسا قفس موجود ہیں کہ جس میں قید پرندے و جانور انسانوں خاص طور پر صاحب اختیار لوگوں کی بے رحمی کی منہ بولتی تصویر بن گئے ہیں۔


اسلام آباد کا ”مرغزار چڑیا گھر” کئی سال پہلے پررونق سیر گاہ تھی ۔ چھٹی کے روز بچے والدین کے ساتھ اپنے پسندیدہ جانور دیکھنے آتے، پنجروں کی جالی کے اندر سے اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے جانوروں کو دانہ ڈالتے۔ اسکول پکنک پر بھی بچوں کو چڑیا گھر کی سیر کروائی جاتی تا کہ سیر و تفریحی کے ساتھ بچوں کو جانوروں کے حوالے سے معلومات بھی دی جائیں ، پر اب سوچتی ہوں کہ بچوں کو اگر جانوروں کے حوالے سے کوئی معلومات دینی ہوں تو کیا بتایا جائے گا کہ ” بچوں دیکھو یہ سست کاون ہاتھی یہاں دس سال سے اکیلا ہے اس کا کوئی ساتھی نہیں، یہ اداس اور بیمار رہتا ہے ، آو ! بچوں اگلے پنجرے میں بطخیں دیکھتے ہیں۔ یہ دو ہی رہ گئی ہیں کچھ سال پہلے اس پنجرے میں بہت بطخیں اور ان کے بچے ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ سب ایک ایک کر کے مررہی ہیں۔

بچے جب ساتھ والے پنجرے پر نظر ڈالیں گے تو انہیں صرف باہر بورڈ پر نیل گائے لکھا ملے گا ورنہ پنجرا تو سال کے ابتدا میں ہی خالی ہو گیا تھا ، 5 پیاری نیل گائیں اچانک ہی اللہ کو پیاری ہو گئی تھیں ،، چڑیا گھر کے نام سے ایسا لگتا ہے جیسے وہاں چڑیاں طوطے یا دوسرے پرندے ہوں گے لیکن پنجروں کو مایوسی سے تکتے بچوں کی نظر جب پرندوں کے پنجرہ پر پڑے گی تو ان کو علم ہو گا کہ اب یہاں اڑان بھرنے والا کوئی باقی نہیں رہا ،،ہاں بچوں کی دلچسپی کیلئے ایک پنجرے میں بلی کی طرح دبکے شیر شیرنی ملیں گے ، بچوں کا بتایا جائے گا کچھ سال پہلے انتظامیہ کی غفلت سے یہ اپنے بچوں کو کھو بیٹھے ہیں۔ معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا جائے گا کہ بچوں اب یہاں چیتا،زرافہ اورمگرمچھ بھی موجودنہیں۔۔ پر یہاں ٹوٹے پھوٹے فائبرگلاس سے بنے ڈائنوسارزکے مجسمے ہیں۔

دُنیا بھر کے چڑیا گھروں میں جانوروں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ چڑیا گھروں میں جدت لائی جارہی ہے۔ بعض چڑیا گھروں کو سفاری پارک میں تبدیل کیا گیا، جہاں جانور کو قدرتی ماحول دیا جاتا اور وہ کھلی فضا میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہاں حکومت بدلی، موسم بدلا،ادارے کا کنٹرول بدلا ناں بدلی تو دارلحکموت کے چڑیا گھر کی قسمت۔۔۔ چڑیا گھر کی گینڈ کبھی میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کے کوٹ میں جاتی تو کبھی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ۔۔۔ اور اس سب میں نقصان ہوا تو صرف جانوروں کا۔


اگست میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر مرغزار چڑیا گھر کا اختیار میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد سے وزارت موسمیاتی تبدیلی کو تو مل گیا،،،لیکن جانوروں کی حالت زار ناں بدل سکی ،، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ایم سی آئی کی رسہ کشی سے جانور ازیت میں مبتلا رہے،، اگست کے آخر اور ستمبر کے آغاز کے دوران ایک ہفتے میں پانچ سے سات قیمتی جانور مرگئے۔ نایاب چنکارہ، پرندے، بطخیں، طوطے بھی مرنے والے جانوروں میں شامل ہیں،اس موقع پر وزارت موسمیاتی تبدیلی کا کوئی بھی اہلکار یا افسر موقع پر موجود نہ تک اور تو اور وَزارت موسمیاتی تبدیلی نے اپنی نا اہلی کو چھپانے کیلئے تمام زمہ داری ایم سی آئی پر ڈال دی۔ صحافی ولید چودھری نے انہیں اداروں کے حوالے سے انکشاف کیا کہ عدالتی احکامات کی آڑ میں وزارت موسمیاتی تبدیلی نے گریڈ انیس کے ڈائریکٹر چڑیا گھر کے عہدے پر وائلد لائف بورڈ کا گریڈ سترہ کا افسر تعینات کردیا جبکہ گریڈ 7 کا وائلڈ لائف گارڈ بھی چڑیا گھر میں تعینات کردیا گیا، ستمبر میں ہی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی نگرانی میں چار نایاب جانور مر گئے جن میں تین نایاب آڑیال اور ایک نایاب کالی بطخ شامل تھی۔

مرنے والوں جانوروں میں ایک نر اور دو مادہ اڑیال شامل تھے۔ ان اموات کی بھی کوئی تحقیقات نہ کروائی گئی اسی دوران میں وزیر اعظم نے اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر کو ایم سی آئی سے وزارت موسمیاتی تبدیلی کو منتقل کرنے کی منظوری دیدی، چند روز بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے دوبارہ مرغزار چڑیا گھر کو میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کے حوالے کردیا۔۔ دو ماہ کے دوران بار بارچڑیا گھر کی منتقلی کی وجہ سے چڑیا گھر مزید خراب ہو گیا۔

دوبارہ سے چڑیا گھر کی سپردگی ملتے ہی ایم سی آئی نے اپ گریڈیشن کا فیصلہ کیا جس میں جانوروں اور دیگر انتظامات کیلئے سی سی ٹی وی کیمرہ سسٹم لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پر جب بات جانوروں کی خوراک کی آئی تو جناب ادارے کی جیب خالی نکلی۔ 18 اکتوبر کا دن مرغراز چڑیا گھر کے جانوروں کیلئے قحط زدہ تھا۔ ٹھیکدار نے صاف صاف کہہ دیا کہ جانوروں کو تب تک خوراک نہیں دی جائے گی جب تک فنڈز سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ ۔یعنی بے حسی کی انتہا ! نہ جانے ایسے ہی کتنے روزان بے زبانوں نے بنا خوراک کے گزارے ہونگے۔ قید وبند میں ان جانوروں نےکیا کیا صعوبتیں نہ جھیلیں۔

یہ حالات یونہی چلتے رہے۔ پانی سر سے جب گزر گیا تو ایف آئی اے اور سی ڈی اے کو ہوش آیا اور دونوں اداروں نے چڑیا گھر انتظامیہ کے خلاف گھیرا تنگ کرلیا۔ ایف آئی اے کی طرف سے نیل گائے کی ہلاکتوں پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تو سی ڈی اے نے بھی باقائدہ چڑیا گھر کے نو افسران اور ملازمین کو خلاف آڑے ہاتھوں لےلیا۔ سی ڈی اے کی جانب سے دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیدی گئی، اب دیکھتے ہیں کہ تحقیقاتی فائل بھی باقی گرد آلود فائلوں کا حصہ بنے گی یا انسان جانوروں کو انصاف دلاوا سکیں گے۔اگر ہم مذہبی نکتی نظر سے دیکھیں تو اسلام ہمیں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدکرتا ہے، ان بے زبانوں کے ساتھ پیار اور شفقت کا درس ملتا ہے، تاریخ میں کئی واقعات ایسے نظر آتے ہیں کہ ایک جانور کی خوراک کا بندوبست کرنے سےہی بڑے بڑے گناہ گاروں کو بخشش کی نوید سنائی گئی۔ حقیقی ریاست مدینہ میں تو جانوروں کا بہت خیال رکھاجاتا ہے۔ پر جیسے پاکستان کی ریاست کو کوئی فکرہی نہیں پڑتا۔اشرف مخلوقات کا ثبوت دیتے ہوئے اس بات کا فیصلہ اب ہو جانا چاہئے کہ آیا مرغزار چڑیا گھر کو مکمل بند کردینا ہو گا یا دوبارہ سے اس کی رونقیں بحال کرنی ہے۔ محکموں کو فیصلہ جلد کرنا ہو گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے