کالم

شدت انگیزی میں بتدریج کمی

جنوری 9, 2020 4 min

شدت انگیزی میں بتدریج کمی

Reading Time: 4 minutes

کڑوا لیکن سیاست کا ایک خوش آئند سچ ہے! کسی انتہائی مشکل موڑ پر تھوڑی سی بزدلی کا مظاہرہ اور ایک قدم پیچھے ہٹ جانا حیرت انگیز کمالات دکھاتا ہے!

آج کل کے ٹیکنالوجی کے دور میں عظیم حکمت عملی کے مظاہرے کے لئے ٹویٹر کا استعمال ایک بہترین ذریعہ بن گیا ہے۔ ٹویٹس کے ذریعے ساری دنیا کو علم ہونے سے پہلے ہی تمام باشعور لوگ # فیس سیونگ پر مبنی ان انتقامی میزائل حملوں کے حقیقی مقصد سے بخوبی واقف تھے۔ اس لایعنی گولہ باری کا واحد مقصد اپنی بھولی بھالی عوام کو مطمئین رکھنا تھا۔

پھر جو باتیں تجربہ کار سفارت کاروں کے دائرہ اختیار میں طے کی جاتی تھیں، اس حملے کے کچھ ہی لمحوں بعد دشمن #ایرانی اور # امریکی رہنماوں میں ٹویٹر پر فائر بندی کی شرائط پر بھی اتفاق ہوگیا۔ ایران کے وزیر خارجہ کے ٹویٹ ‘اگر آپ جوابی کارروائی نہیں کریں گے تو ہم بھی مزید کوئی اقدام نہیں کریں گے‘ پر صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ‘سب ٹھیک ہے‘ اور سونے کے لئے چلے گئے۔ یہ ایک شاندار عملی حکمت عملی ہے۔

قوم میں موجود ایرانی قیادت نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ # قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے #اہل تشیع کی عالمی برادری متحد ہو کر ان کے پیچھے کھڑی ہو گئی ہے۔ وہ اس گرم جوشی سے کیونکر محروم ہونا چاہیں گے جو ان کے لئے ایک اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پچھلے سال دسمبر تک انہیں بغداد کے ساتھ ساتھ تہران میں بھی شدید عوامی مزاحمت کا سامنا تھا لیکن ٹرمپ کے جارحانہ اقدام نے عوام کو قوم کے پیچھے متحد کردیا۔ اسلامی ریاست کی خوش بختی کے لئے یہ شہادت ایک بروقت اور خوش آئند واقعہ تھا۔ ایک بیکار، لاحاصل، خود تباہی پر مبنی جنگ چھیڑ کر اس گرم جوش عوامی حمایت سے کیوں محروم ہوا جائے؟

ایرانی قیادت سوشل میڈیا پر اس بات کا بغور مشاہدہ کر رہی ہے کہ امریکہ کے اس جارحانہ اقدام سے متعلق خود امریکا میں عوام کی جانب سے بڑے پیمانے پر بیزاری، مزاحمت اور مخالفت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اندر ایران کے خلاف جنگ عوامی سطح پر انتہائی غیر مقبول ہے۔

ایرانی حکومت اس جنگ مخالف حمایت کو مزید بڑھتا دیکھنا چاہے گی کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کسی امریکی شہری کے قتل کے بعد اس حمایت کا رخ یکسر بدل جائے گا۔ اپنے مقاصد کے حصول کا بہترین موقع انہیں نومبر میں نظر آرہا ہے وہ ایسا مزید کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے یہ جھڑپ ایک زہریلی نفرت پر مبنی تباہ کن جنگ میں تبدیل ہو جائے، اسکی بجائے وہ یہی تاثر قائم رکھنا چاہیں گے کہ یہ واشنگٹن میں موجود مہم جو صدر کی جانب سے سیاسی ضرورت کے تحت کیا جانے والا ایک مخصوص واقعہ ہے۔

وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ قاسم سلیمانی کے غیر محتاط قتل کے بعد ان کے خاص حمایتی پیوٹن نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایسا ٹرمپ کو سیاسی پینترہ بازی کے لئے کچھ گنجائش فراہم کرنے کے لئے کیا تاکہ وہ پیوٹن کا آدمی ہونے کے الزامات سے بچ سکے۔

ایرانی قیادت اپنی حکمرانی کے تسلسل کے بارے میں بہت زیادہ ادراک رکھتی ہے اور انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اعلانیہ بھرپور فضائی جنگ کے نتیجے میں ان کی توانائی، مواصلاتی اور جوہری تطہیر کی سہولیات انتہائی مختصر وقت میں تباہ ہو جائیں گی۔ پھر وہ کیا کریں گے؟اس لئے انہیں ہر قیمت پر جنگ سے گریز کرنا چاہئے!

اگر تہران کھنڈرات میں تبدیل ہوتا ہے تو معاشی طور پر کمزور ایران اپنے کمزور میزائل نظام کے ساتھ شیعہ جھنڈے کے نیچے جاری اپنے اس خاموش عالمی ایجنڈے کی پیروی کرنے سے قاصر ہو گا جس کے ذریعے وہ حقیقی طور پر # بیروت # دمشق # بغداد اور # صنعا پر اپنا اثر رسوخ قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ چاروں دارالحکومت تہران کی جیب میں ہیں۔ انہوں نے خاموشی کے ساتھ جزیرہ عرب کو پوری طرح سے گھیر لیا ہے ، جہاں کی معیشتیں اور کرنسی انکے خود کے متضاد مستحکم ہیں۔

اسلامی انقلاب جزیرہ عرب کے کامیاب معاشی نظام کو بھی اپنی طرح کے دیوالیہ نظام میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ وہ #مرگ بر آمریکا ، #مرگ بر اسرائیل جیسے نعروں کو پوری امہ کی للکار بنا دینا چاہتے ہیں چاہے اس کا مطلب تباہ شدہ اور دیوالیہ قوم ہو۔ اسلامی انقلاب کی یہ وہ عظیم ریاستی حکمت عملی ہے جو وہ پچھلے 42 سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ کھوکھلے نعروں سے پیٹ نہیں بھرتے۔

تہران بخوبی جانتا ہے کہ بیروت، دمشق، بغداد محصور معیشتیں ہیں ، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ کامیاب اسلامی انقلاب کے اہداف کے وہ اثرات ہیں جو خوفناک معاشی خواب میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، ان ممالک کی کرنسی کاغذ کے بیکار ٹکڑوں میں تبدیل ہو گئی ہے۔ انقلاب کی کل قیمت معیشت کو بہت بڑا نقصان پہنچاتی ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی انقلاب کا معاشی مرکزی خیال بغدادی خلافت اور ملا عمر کی امارت جیسی دیوالیہ اقوام کے ساتھ مشترکہ ہے۔ اسکے پیچھے ایک خاص وجہ ہے کہ ایک امریکی ڈالر کی قیمت بیالیس ہزار ایرانی ریال کے برابر ہے، یہی حال عراقی دینار , شامی پاونڈ اور لبنانی لیرا کا بھی ہے۔

کیونکہ انقلاب میں طویل المدتی درشت نعروں پر زیادہ اور معاشرتی ترقی پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ # صفوی # عثمانی # مغل جیسی آتشیں اسلحہ کی حامل ریاستوں کے # سیاسی_اسلام کی ساری کاوشیں غیر ضروری بیکار نظریاتی ایجنڈوں اور ندامتی جنگوں پر ضائع ہو جاتی ہیں۔ مجھے اس سوال کا جواب تلاش کر کے دیجئیے کہ شام الیپو عراق موصل لبنان بیروت کیوں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں!

تاریخ سے ان لوگوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ قوموں کی تعمیر کا عکس ان کے عوام کی خوشحالی اور بہتر معیار زندگی سے جھلکتا ہے۔ یہ کسی بھی انقلاب کی کامیابی کو پرکھنے کا حقیقی پیمانہ ہے۔ سیاسی اسلام پر مبنی انقلاب کی ایک ہی مشترکہ کرنسی ہے اور وہ اپنی قوم کا دیوالیہ پن ہے۔

ایرانی حکومت نظریاتی شدت پسند ضرور ہے لیکن احمقانہ طور پر خود کش نہیں ہے، اسلامی ریاست کی حفاظت بہرحال ان کی اولین ترجیح ہے۔ یہ تصور بازاروں میں خوب بکتا ہے کہ انہوں نے امریکا پر حملہ کر کے دکھایا ہے جو آج تک کوئی اور نہیں کر سکا۔

اقبال لطیف
Iqbal Latif
Translation Shehzad Nasir

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے