لاپتہ بلاگر بول پڑا
Reading Time: 3 minutesپاکستان میں ہر طرف سوشل میڈیا بلاگرز( لکھاریوں ) کا معاملہ زیر بحث ہے، ایسے ہی ایک بلاگر کو کئی دنوں کی جبری گمشدگی کے بعد چھوڑ دیا گیا تو وہ بیرون ملک چلا گیا، اس نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا ہے _ حال ہی میں بازیاب ہونے والے ایکٹوسٹ وقاص گورایا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاک فوج سے منسلک ایک ریاستی ادارے نے انہیں اغواءاور تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ وقاص گورایا ان پانچ افراد میں سے ایک ہیں جنہیں گزشتہ جنوری میں لاپتہ کیا گیا تھا۔ تمام پانچ لاپتہ افراد چند ہفتوں بعد رہا ہوچکے تھے تاہم ابھی تک انہوں نے نہیں بتایا کہ کون انکی اغوا میں ملوث تھا۔ پاکستان کی فوج ان پانچ افراد کے اغوا میں ملوث ہونے کی تردید کرچکی ہے۔ وقاص گورایا جو کہ اب ہالینڈ میں رہائش پذیر ہیں نے کہا ہے کہ انہیں بے حد تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تین ہفتوں میں دورانِ قید تھپڑ وں گھونسوں سمیت شدید دباﺅ میں زبردستی رکھا گیا اور انہیں اندازہ تھا کہ انہیں کبھی رہائی نہیں ملے گی۔ وقاص گورایا نے کہا کہ ہم جانتے تھے کہ اب ہماری آزاد زندگی کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ہمیں تشدد کر کے قتل کردیا جائےگا_ گورایا نے کہا کہ جنیوا میں اقوام متحدہ کے کونسل برائے بنیادی حقوق کو بھی اس بارے مطلع کیا۔ گورایا کہتے ہیں کہ ان کو صرف اس لیے قید میں رکھا گیا کیونکہ وہ فیس بک پرپاکستان کی فوج و سیاسی نظام بارے ایک تنقیدی پیج چلاتے تھے۔ مذکورہ پیج بلوچستان میں موجود ایف سی اور فوجی کارروائی پر بھی تنقید کر چکا ہے۔ تاہم گورایا کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی تردید کرتے ہیں ۔ انہوں نے بی بی سی کو کہا کہ انہوں نے کوئی ایسی غیر قانونی حرکت نہیں کی اور اگر کوئی غیر قانونی حرکت ہوتی تو انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا نہ کہ غیر قانونی جبری قید میں رکھا جاتا۔ ماہ جنوری میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج نے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انکا بلاگرز کی گمشدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ حکومت کسی کی جبری گمشدگی کو برداشت نہیں کرےگی۔ وقاص گورایا سمیت دیگر چار بلاگرز کے لاپتہ ہونے کے بعد انکی بازیابی کے لیے سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز ہو ا تھا تاہم اس مہم کے انسداد کے لیے چند ٹی وی اینکروں کی مدد سے ایک دوسری مہم کا آغاز کیا گیا تھا جس میں عوام کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ لاپتہ افراد توہین رسالت کے مرتکب ہیں۔ پاکستان میں توہین رسالت ایک جذبات انگیز معاملہ ہے اور توہین رسالت کرنے والے کی سزا موت ہے۔ مگر وقاص گورایا کے مطابق ان پر توہین رسالت کے الزامات جھوٹے ہیں اور ان کے پیج پر کی گئی توہین رسالت کی پوسٹس بدنیتی سے گڑھی گئی ہیں۔گورایا کہ مطابق توہین رسالت کے الزامات ان کو چپ کروانے، انکے خاندان کو دھمکیاں دینے اور انہیں دباﺅ میں رکھنے کے لیے لگائے گئے۔ گورایا کہتے ہیںکہ وہ پاکستانی پارلیمنٹ سے بل پاس کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے بات کر کے تعاون کر سکتے ہیں جس کے بعد پاکستانی فوج سے لاپتہ افراد کی تفصیلات تین روز میں حاصل کی جاسکیں گی۔ انہوں نے اپنے اغوا پر حکومت پاکستان سے انصاف مانگتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اس معاملے کی تحقیق کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ انکے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن کو دیکھ کر اغوا میں ملوث افراد تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ابھی تک گورایا اعصابی مسائل کا شکار ہیں انکے ہاتھ پاﺅں ٹھیک سے حرکت کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ صحیح سے سن سکتے ہیں تاہم وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے بھرپور پر عزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنہوں نے انکو اغواء کیا تھا وہ اب بھی لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کر رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ افراد کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو انکو کون روکے گا کسی نہ کسی نے اس کے خلاف لازمی آواز اٹھانی ہے۔