کالم

جدیدیت، اسلام اور تخلیقی عمل

جنوری 14, 2020 4 min

جدیدیت، اسلام اور تخلیقی عمل

Reading Time: 4 minutes

کسی نے اپنی وال پر سوال اٹھایا ہے کہ آپ کے لئے کیا اہم ہے؟ جاب، کاروبار کی نیچر یا آمدنی؟ اور پھر اپنے طور پر اس حوالے سے کچھ رہنمائی بھی فراہم کی ہے لیکن اس حوالے سے سب سے اہم پہلو کی جانب ان کا ذہن ہی نہیں گیا۔ ان کی رہنمائی صرف ان کے لئے کارآمد ہے جن کے لئے "آمدنی” ایک بڑا ہدف ہے۔ یعنی ملازم یا تاجر ذہن۔ لیکن ایک ذہن اور بھی ہے، جس کی میں نمائندگی کرتا ہوں۔ میرے لئے یہ بات کسی بدترین تشدد سے کم نہیں کہ میں پیسہ کمانے پر مجبور ہوں اور مجبور بھی اس حد تک کہ میرا سب سے زیادہ وقت یہ کام غصب کرے۔ اور نتیجہ یہ ہو کہ معاشرے کی بہتری کے لئے اپنی حاصل صلاحیتوں کے استعمال کی گنجائش میرے پاس کم رہ جائے۔ اس صورتحال کا ایک حل جدیدیت کی زیر اثر مسلم دنیا نے یہ ڈھونڈ لیا ہے کہ اگر آپ کوئی اخلاقی، علمی یا سماجی بہتری کے لئے درکار کوئی اور تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں تو اسی کو پیشہ بنا لیجئے۔

بظاہر یہ ایک آئڈیل حل نظر آتا ہے مگر اس کا سب سے تباہ کن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کی آزادی سلب ہوجاتی ہے۔ جبکہ جدیدیت تو مجموعہ ہی جن دو چیزوں کا ہے ان میں پہلی چیز آزادی اور دوسری ترقی ہے۔ اب ذرا مسلم ذہن کی آزادی سلب ہونے کی صورت بھی سمجھ لیجئے۔ مثلا آپ سماجی فلاح کے لئے قلم استعمال کرنے کی صلاحیت سے آراستہ انسان ہیں تو اسے پیشہ بنانے کے نتیجے میں آپ وہ نہیں لکھ سکتے جسے لکھنا آپ کا شعور ناگزیر سمجھتا ہے۔ بلکہ ظلم یہ ہوجاتا ہے کہ آپ کا لکھنا کسی ایسے ایگزیکٹو کی منشاء کے تابع ہوجاتا ہے جس الو کے پٹھے کی اپنی شعوری حالت کسی بھکاری یا ذہنی غلام کی ہوتی ہے۔ اور وہ آپ سے کہتا ہے، وہ اور ویسا لکھئے جیسا لکھنے کی میں "اجازت” دیتا ہوں۔

سوال یہ ہے کہ یہ ذہنی غلام آتا کہاں سے ہے؟ جدیدیت کے خالقوں کے سامنے انیسویں صدی میں یہ سوال کھڑا ہوا کہ کوئی تہذیب بیرونی جارح کے خلاف شدید مزاحمت کیوں کرتی ہے ؟ اس سوال کا جواب انہوں نے اپنی عقل کے مطابق یہ دریافت کیا کہ چونکہ بیرونی حملہ آور زبان، لباس، ثقافت اور سوچنے کے انداز میں مفتوح سے مختلف ہوتا ہے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ چنانچہ یہاں سے ترکی کے ضیاء گوکلپ اور برصغیر کے سرسید جیسی مثالوں کے ذریعے ان چار رکاوٹوں کو دور کرنے کی ترکیب کی گئی کہ مفتوح کو اپنے رنگ میں رنگنے کا انتظام کرو۔ اور یہ انتظام ذہنی غلاموں کو جنم دینے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ ان ذہنی غلاموں کی لگائی ہوئی بندشوں کا حاصل یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں تخلیقی عمل کا جنازہ اٹھنا تو بہت بعد کی بات ہے وہ صحیح معنی میں پیدا بھی نہیں ہوپاتا۔ یہ بندشیں تخلیقی عمل پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ مجھ جیسے معمولی رائٹر کی بھی سب سے مؤثر تحاریر وہ ہیں جو میں نے "کمائی” کے لئے بطور ملازم نہیں لکھیں۔ چونکہ ان کی اشاعت کسی اور کی مرضی پر منحصر نہ تھی تو ان کے نتائج بھی کچھ اور ہی طرح کے ہیں۔

اب سوال یہ آجاتا ہے کہ جو جدیدیت تصور ہی آزادی کا پیش کرتی ہے وہ مجھے ملازم بناتے ہی میری آزادی کیوں چھین لیتی ہے ؟ جواب بہت سادہ ہے۔ جدیدیت مذہبی ورلڈ ویو کے مقابل اپنا ورلڈ ویو پیش کرتی ہے۔ مذہبی ورلڈ ویو ایمان و اعمال خیر کے تصور پر کھڑا ہے جو جدیدیت کو کسی بھی طور قبول نہیں۔ وہ تو آئی ہی اسے مسمار کرنے ہے۔ اب ایک تیسرا سوال کھڑا ہوجاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ میں جدیدیت کے حضور سرنڈر کیوں نہیں کردیتا ؟ مذہبی ذہن اس لئے سرنڈر نہیں کرسکتا کہ جب آپ مذہب سے دستبردار ہوکر صرف آزادی اور ترقی کا لولی پاپ چوستے ہیں تو آپ کے پاس دو ہی آپشن بچتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جانور بن جائیے اور یہ پسند نہ ہو تو روبوٹ بن جائیے۔ اور انسان کی سوچنے اور غور و فکر کی صلاحیت خود انسان اور اس کے وجود کے حوالے سے بعض ایسے سوالات اٹھاتی ہے جن کے ہوتے نہ تو وہ جانور بننا قبول کرسکتا ہے اور نہ ہی روبوٹ۔ اور ان سوالات کا جواب مذہب کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ اور یہ کوئی مسلم ذہن کے نہیں بلکہ مطلقا انسانی ذہن کے سوالات ہیں اور اہم تر ہیں۔ مثلا آپ یوٹیوب پر مغرب کے نو مسلموں کی سیلفی ویڈیوز دیکھیں تو ان میں سے 90 فیصد اسلام کی جانب اپنے سفر کے آغاز کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ یہ سوال بہت تنگ کرتا تھا کہ میں اس دنیا میں کیوں ہوں ؟ اور اس سوال کا سب سے شافی جواب قرآن مجید کے سوا کسی کے پاس نہ ملا۔ یوں اسلام کا سب سے تیز رفتار پھیلاؤ جدیدیت کے اپنے گھر میں ہورہا ہے۔

میرے چونکہ بچے بڑی عمر کے ہیں۔ اور اب عملی زندگی میں قدم بھی رکھ چکے ہیں تو میں نے ان سے بہت درد مندی کے ساتھ یہ کہہ رکھا ہے کہ یار مجھے گھر چلانے کے جھنجٹ سے آزاد کرو۔ اور عمر کے ان آخری دس بیس سالوں میں مجھے وہ لکھنے کی سہولت مہیا کرو جو مجھے لکھنا چاہئے۔ اور وہ تو تب ہی لکھا جاسکے گا جب وہ کمائی کے لئے نہ ہوگا۔ لیکن بات اتنی سادہ ہے نہیں۔ کیونکہ ساتھ ہی مجھے یہ سوال بھی درپیش ہے کہ جس طرح پچھلے تیس سال میں بچوں پر خرچ کرتا رہا ہوں اور ان کی حاجات پوری کرتا رہا ہوں، کیا یہ بھی اسی طرح مجھ پر پورے شوق و ذوق سے خرچ کرسکیں گے ؟ اور یہ بہت ہی ڈراؤنا سوال ہے۔ کیونکہ جب میں خرچ کرتا تھا تو میری اہلیہ ان کی ماں تھی۔ اور یہ اس رشتے کا کرشمہ تھا کہ وہ کہتیں، "اور خرچ کیجئے، اور اچھی چیز انہیں دلائیے” لیکن جب ان کے خرچ کرنے کی باری آئے گی تو ان کی لائف پارٹنر تو میری وہ ہوگی جو کہتی ہے "بڈھا کھانستا بہت ہے۔ اسے سرونٹ کوارٹر میں شفٹ کرو !” امید ہے اب آپ یہ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ بیشتر تخلیق کار کنگال کیوں رہتے ہیں ؟ پیسہ کمانے کی دوڑ میں شریک ہونا ان کے لئے ایک گھٹیا اور ذلیل سرگرمی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ پیسہ کمانے کی دوڑ میں جدیدیت کا اسیر کمرشل تخلیق کار ہی شوق و ذوق سے شریک ہوسکتا ہے!

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے