کالم

دولت کے اتکاز کی بات غلط ہے

جنوری 18, 2020 4 min

دولت کے اتکاز کی بات غلط ہے

Reading Time: 4 minutes

@ دنیا میں دولت کا ارتکاز چند لوگوں تک محدود ہے جو دنیا کی آبادی کا ایک فیصد ہیں؟

دیکھیے میرے نزدیک یہ کہنا کہ دنیا پر چند افراد کا قبضہ ہے، بہت بڑی خرافات ہے! کیونکہ یہ بات تخلیقی اذہان کے خلاف غصہ اور حسد کے جذبات پیدا کرنے کا باعث ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ امیر لوگوں کی جس دولت کا ہم واویلا مچائے رکھتے ہیں وہ نہ تو کسی بینک میں جمع ہے اور نہ ہی کرنسی نوٹ کی شکل میں موجود ہے بلکہ منڈی میں اسکی سرمایہ بندی کا نوے فیصد حصہ ان کی تخلیقی علم پر مشتمل کمپنیوں پر مبنی ہے۔

یہ ایک فیصد اس جنگ کا نتیجہ ہیں جس میں جدید معیشت نے قدیم معیشت کا تختہ الٹ دیا۔ اکیسویں صدی کے اذہان نے لٹیرے۔

سرداری اور سوداگر معیشت پر فتح حاصل کر لی جو صنعتی جدت طرازی کی پختگی سے قبل بیسویں صدی تک رائج تھی ، پرانی معیشت کے اسٹاک میں فورڈ (ایف) ، کیٹرپلر (سی اے ٹی) ، 3 ایم (ایم ایم ایم) اور پراکٹر اینڈ گیمبل (PG) جیسے قابل ذکر نام شامل ہیں۔

جدید معیشت سے مراد اکیسویں صدی کا وہ شاندار جدت طراز نقطہ نظر ہے جو انٹرنیٹ، اور کلاوڈ ٹیکنالوجی کے گرد مرکوز ہے۔ جس کی بدولت انٹرنیٹ کی طرف انقلابی منتقلی اور کلاوڈ میں سرگرمیاں جاری ہیں۔

#(فانگ) کے مخفف کے تحت مارکیٹ فیس بک ، ایپل ، ایمیزون، نیٹ فلکس، اور گوگل کا شمار جدید معیشت کی بالائی پانچ کمپنیوں میں کرتی ہے۔

آج (GOOGL) کے حروف تہجی کا شمار ایپل (AAPL) اور مائیکروسافٹ (MSFT) کے ساتھ کم از کم $ 1 ٹریلین ڈالرز کی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ ایپل ریاست ہائے متحدہ امریکا کی سب سے بیش قیمت کمپنی ہے جس کی مالیت تقریبا$ 1.4 ٹریلین ڈالرز کے قریب ہے جبکہ مائیکرو سافٹ کی قدر تقریبا $ 3۔1 ٹریلین ڈالرز ہے۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے جب تین امریکن درج کمپنیوں کی قدر ایک ہی وقت میں کم از کم 1 ٹریلین ڈالرز ہے۔ یقینا اب ناقدین کی طرف سے اس پر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا مزید شور و غوغا بلند ہو گا۔ لیکن شاید ہی کوئی اس حقیقت کو اجاگر کرے گا کہ یہ سب وہ کاغذی سرمایہ ہے جو انسانی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت وجود میں آ رہا ہے۔

اگر انٹرنیٹ نہ ہوتا تو نہ ہی کوئی وائی فائی ہوتا اور نہ ہی کوئی آفاقی رابطہ ممکن ہوتا اور ہم اب بھی تانبے، بھاپ والے انجن جیسی اجناس پر مبنی معیشت ہوتے ، ہماری زندگیاں اس طرح سے باہم متصل نہ ہوتیں۔ اجناس پر مبنی معیشت غیر موثر اور غیر مستحکم تھی۔ اس تخلیقیت نے ہماری دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا ہے۔

اگر آج یہ جدت طرازی رک جاتی ہے تو ایک فیصد امراء کی یہ تمام دولت راتوں رات ہوا میں تحلیل ہوجائے گی۔ وہ اپنی حیثیت یا نام نہاد دولت کو نہ ہی بیچ سکتے ہیں اور نہ ہی اسے کرنسی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ # مارک # گیٹس # بیزو اور 37 ملین دوسرے کروڑ پتی یہ سب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں ، یہ ایک متعدد کم آمدنی والے تخمینہ سے اونچی توقعات وابستہ کرنے کا پیشگی صلہ ہے جو مارکیٹ ان کی ہولڈنگ سے منسلک کرتی ہے ، مارکیٹ کی بڑی سرمایہ بندی بڑھوتری کی توقعات اور صلہ کے ساتھ ساتھ مستقبل کی ترقی کی رفتار پر منحصر ہے۔

مثال کے طور پر FB P / E کا حقیقی تناسب آمدنی کا 86 گنا ہے جب حصص کی تجارت 124 پر ہو رہی ہو ، لہذا 50 ارب ڈالر کے ساتھ مارک بہت امیر نظر آتا ہے کیونکہ مستقبل کی آمدنی کا اضافہ حصص کی آج کی قیمت میں مضمر ہے۔

اب دیکھئیے کہ # فیس بک ، دنیا کے سب سے مقبول میڈیا کی مالک ہے لیکن کوئی مواد خود سے تخلیق نہیں کرتی ان کے پاس اس کے لئے اربوں تخلیق کار موجود ہیں، جبکہ دوسری طرف پرانے میڈیا کو ایسا مواد تخلیق کرنے کے لئے اب بھی مالی ادائیگی اور چھپوائی کرنا پڑتی ہے جو فیس بک کے اصل مواد کی طرح زیادہ تازہ بھی نہیں ہوتا ہے۔ ٹویٹر اپنے مختصر پیغام میں عالمی قیادت کی حکمت عملیوں کا نچوڑ عوام تک پہنچا کر انہیں باخبر رکھتا ہے۔

کسی بہتر پلیٹ فارم یا آئیڈیا کے سامنے آنے سے اگر FB P/E زوال پذیر ہوتا ہے یا آمدنی میں اضافہ کسی سیمنٹ یا گارے کی کمپنی کی طرح مخدوش نظر آتا ہے ، فرض کریں 12 پر چلا جاتا ہے تو مارک امیر آدمی نہیں رہے گا۔ اس کے حصص کی قیمت گرنے سے اس کی بازاری سرمایہ بندی بھی بہت زیادہ گر جائے گی۔

#ایمزون کے پاس کوئی # شاپنگ مالز نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ سب سے بڑا ریٹیلر ہے۔ ایمیزون نے ریٹیل کی ساخت کو تبدیل کردیا ہے ، خریداری کے مقصد سے بنفس نفیس جانے کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ اب آن لائن خریداری کو ترجیح دی جاتی ہے۔

تخلیق ایک بہت ہی پیچیدہ طریقہ کار ہے ، دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی اوبر ایک بھی # ٹیکسی کی ذاتی طور پر مالک نہیں ہے۔ # علی بابا جو سب سے بیش قیمت ریٹیلر ہے لیکن صفر انوینٹری پر کام کرتا ہے۔ اور دنیا کا تازہ ترین کمرہ فراہم کرنے والا # ائیر بی این بی آپ کے گھر کا فائدہ اٹھاتا ہے اور خود کسی ہوٹل کا مالک نہیں ہے۔ یہ آئیڈیا اصل میں ٹام گوڈون کا بیان کردہ تھا۔

# اوبر ، # انسٹاکارٹ ، # علی بابا ، # ائیر بی این بی ، # سیملیس ، # ٹوئٹر ، # واٹس ایپ ، # فیس بک ، # گوگل جیسی تمام کمپنیوں نے لوگوں کی زندگی کو آسان کردیا ہے ، یہ کمپنیاں مصنوعات اور صنعت کاروں کے موجودہ کثیر سپلائی چین سے اوپر ہیں ، درمیانے آدمی کو بیچ میں سے نکالتے ہوئے اربوں صارفین کے ساتھ براہ راست منسلک ہونے کی انکی یہی صلاحیت ہے جس نے انہیں میگا کیپٹل مارکیٹ کمپنیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کل کے دیو ہیکل # زیروکس # کوڈک اور # نوکیا آج معدوم ہو گئے ہیں کیونکہ وہ تبدیل ہونے سے قاصر تھے۔

دماغی سرمایہ کی مارکیٹ اجناس پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ وہ اچھوتے نظریات ہیں جو مسلسل تغیر پذیر ہیں ۔ یہ نظریات کی دنیا ہے جہاں فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور اعلی کارکردگی نے سب کی مدد کی ہے ، اور عالمی افراط زر کے دباؤ کا خاتمہ کردیا ہے کیونکہ سامان اور مصنوعات کے آزادانہ بہاؤ نے قیمتوں میں ثالثی کی مدد کی ہے۔

یہ غربت سے امارت تک کی کہانی کا لب لباب ہے۔ اگر آپ گذشتہ 2،000 سال کی معاشی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو نظریات اور جدت کی اس جنگ کا تسلسل واضح نظر آئے گا۔ یہی ایک قوم کی تعریف بیان کرتا ہے۔ پرانے نظریات ناکام ہو جاتے ہیں اور انکی جگہ جدید نظریات لے لیتے ہیں۔ یہ زمانہ بھی ختم ہو جائے گا اور ایک نیا زمانہ اور نیا دور اسکی جگہ سنبھالیں گے۔ آپ کو بطور فرد یا ریاست اپنی بقا کے لئے موافقت پذیر اور اعلی پائے کا جدت طراز ہونے کی ضرورت ہے۔

اقبال لطیف
Translation: Shehzad Nasir

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے