سارے زمین پر
Reading Time: 6 minutesایک فلم بنی تھی "تارے زمین پر ” ہمارے سیاسی افق پر آج کل جو فلم چل رہی ہے اسکا نام ہونا چاہیئے ” سارے زمین پر”
دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کو اب قریبا پونے دو سال ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں ہماری سیاست ، معاشرت ، ریاست اور معیشت بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ اس لیئے ضروری ہے کہ ان بیس ماہ کا سنجیدہ اور منطقی جائزہ لیا جائے۔ دیکھا جائے کہ کس فریق نے کیا کھویا اور کیا پایا۔
دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں بنیادی طور پر تین اہم فریق تھے۔ مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور اسٹیبشلمنٹ۔ اس وقت ان میں سے دو فریق مل کر کھیلنا چاہ رہے تھے جبکہ ایک فریق نے باقی دونوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہوا تھا۔ نوبت یہاں تک آچکی تھی کہ طاقتور حلقوں کی جانب سے اس الیکشن کا یک نکاتی ایجنڈا نواز شریف اینڈ فیملی سے نجات حاصل کرنا تھا۔ یہ بات اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز کی نجی محفلوں میں بارہا کہی جاتی تھی اور اہم ملاقاتوں میں مسلم لیگ ن کا نام تک لینے پر بڑے بڑے افسران سیخ پا ہو جاتے تھے۔ الیکشن سے پہلے یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ ن جو ووٹ کی عزت کا نعرہ لگا رہی تھی۔ عمران خان نئے پاکستان کا پرچم بلند کر رہے تھے اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ اس سال کو تبدیلی کا سال قرار دے رہی تھی۔
آج اتنا عرصہ گذرنے کے بعد ان تینوں فریقین کی پوزیشن کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ مسلم لیگ ن اب وہ مسلم لیگ ن نہیں رہی۔ اب کوئی سول سپریمسی کا نعرہ نہیں لگا رہا۔ اب کوئی ووٹ کو عزت دینے کا تقاضا نہیں کر رہا۔ اب نہ خلائی مخلوق کا کوئی ذکر ہو رہا ہے نہ محکمہ زراعت کی خامیوں پر کوئی توجہ دلا رہا ہے۔ اب بیانیہ لیڈران کی علالت ، گرفتاری ، رہائی اور لندن روانگی یا واپسی تک محدود ہے۔ عوامی مسائل پر جس طرح کی اپوزیشن ہونی چاہیئے تھی وہ خواب ہی رہی۔ اگر رانا ثنا اللہ ، احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی رہا نہ ہوتے تو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کا بیانیہ منوں مٹی تلے دفن ہی رہتا ہے۔ ایک مہیب خاموشی ہی مسلم لیگ ن کے ووٹرز اور سپورٹرز کا مقدر بنتی۔
دوسری جانب عمران خان اور انکی جماعت بھی اب وہ نہیں رہی جو الیکشن سے پہلے تھی۔ اب کرپشن فری پاکستان کے نعرے پر بہت دھول پڑ چکی ہے۔ اب اپنی صفوں میں کرپشن کے وہ کیسز نکل آئے ہیں جو نیب کی ہتھکڑی سے دور ہیں۔ اب عمران خان خواب نہیں رہے ، ایک ایسے شخص نہیں رہے جن کی آمد کا یہ قوم دہائیوں سے انتظار کر رہی تھی۔ اب جو کچھ ہے وہ حقیقت ہے اور یہ حقیقت بہت خوفناک ہے۔ اب مہنگائی کا طوفان ہے، اب بیڈ گورننس کا کا بحران ہے۔ اب کرپشن کے کیسز ہیں۔ اب نااہلی ہے۔ اب خود سری ہے۔ اب معیشت کی تباہ حالی ہے۔ اب ڈالر کی بڑھتی قیمت ہے اب روپے کی گرتی قدر ہے۔ اب پڑول کی بڑھتی قیمت ہے۔ اب آٹے اور چینی کا بحران ہے۔ اب خان صاحب کے احباب کی پانچوں انگلیاں گھی اور وہ سر کڑھائی میں ہیں۔ اب عمران خان سے وابستہ خواب بکھر چکا ہے۔ اب وہ ورلڈ کپ کا طلسم ٹوٹ چکا ہے۔ اب وہ شوکت خانم کا سحر ختم ہو چکا ہے۔ اب عمران خان بدتری اور ابتری کا نشان بن چکے ہیں۔ عمران خان کو ووٹ دینے والے پشیمان ہیں۔ اب عوام کی ایک بڑی تعداد اس مشکل سے نجات چاہتی ہے۔ آج اگر ملک میں شفاف الیکشن ہوں تو عمران خان اور انکی جماعت ایک چوتھائی سے بھی کم رہ جائے۔
اس معاملے کے تیسری جانب دیکھا جائے تو صورت حال وہاں بھی اتنی خوشگوار نہیں۔ ” بغض نواز شریف اور حب عمران خان” میں طاقتور حلقوں نے بھی بہت کچھ کھویا ہے۔ اگر چہ یہ سچ ہے کہ اس عرصے میں اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے جو چاہا وہ کر کے دکھایا۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ اس الیکشن میں مسلم لیگ ن کو نہیں چاہتی تھی تو ایسا ہی ہوا۔ وفاداریاں تبدیل کروائیں گئیں، پریشر گروپس بنوائے گئے، الیکشن کے نتائج میں جھرلو پھر گیا۔ الیکشن کے بعد مثبت رپورٹنگ کا حکم آیا تو میڈیا سرنگوں ہو کر مثبت رپورٹنگ پر جت گیا۔ بتایا گیا کہ مریم نواز کا نام سکرین پر نہیں آئے گا تو نہیں آیا۔ یعنی جو چاہا وہ ہوا۔ اس ملک کے مطیع اور زرخرید میڈیا نے اپنے حق میں آواز بلند کرنے کی جرات نہیں کی۔ لیکن الیکشن کے اتنے عرصے کے بعد اگر جائزہ لیں تو اسٹیبشلمنٹ نے بھی بہت کچھ کھویا ہے۔ اب یہ اسٹیبلشمنٹ وہ نہیں رہی جو الیکشن سے پہلے تھی۔ چند نکات پر غور کریں تو بات سمجھ میں آئے گی۔
ایکسٹنشن کے فیصلے سے ادارے کے شفاف امیج کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اگر بات صرف ایکسٹنشن کی ہوتی تو یہ ہضم بھی ہو جاتی یہاں مسئلہ اس طریقہ کار کا ہے جس طرح ایکسٹنشن لی گئی ہے۔ اس سے اس بیانیئے کو مزید شہہ ملی ہے جس کے مطابق غیر جمہوری قوتوں کے تسلط کی وجہ سے اس ملک میں کوئی بھی جمہوری وزیراعظم اپنی مدت نہیں پوری کر سکا۔ زر خرد اینکروں اور بے ضمیر تجزیہ کاروں کی مدد سے ٹی وی سکرینوں پر ایکسٹنشن کے حوالے سے قومی سلامتی کا ایک بیانیہ تو تخلیق کر دیا گیا ہے مگر یہ بیانیہ اتنا ہی مصنوعی اور جعلی ہے جتنی مصنوعی اور جعلی یہ حکومت ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا سے سب بڑا نعرہ "کشمیر بنے گا پاکستان” تھا۔ اب وہ نعرہ موجود نہیں ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ نہیں کرنا ، بلکہ بھارت مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کر چکا ہے۔ اور ہم دھوپ میں ایک گھنٹہ کھڑے ہونے کے سواکچھ نہیں کر سکے۔ اب کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ دفن ہوتا جا رہا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے لیئے بہت بڑا دھچکا ہے۔
ایک اور مضبوط قلعہ پنجاب تھا۔ جہان کے لیڈروں نے ہمیشہ طاقتورں کی قدم بوسی کی ۔ اب وہاں سے بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز اگر چہ چپ ہیں مگر بات اب پنجاب کے لوگوں تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے تجربے کے لیئے آپ پنجاب کی کسی گلی میں جا کر کسی راہگیر سے پوچھ لیں کہ نواز شریف کو الیکشن ہروانے والا اور عمران خان کو الیکش جتوانے والا کون ہے؟ وہ آپ کو فوار درست جواب دے دے گا ۔ یہ بات اگرچہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نہیں کہی جا سکتی مگر یہ بات گلی گلی میں ہو رہی ہے
ہماری عدلیہ ہمیشہ نظریہ ضرورت کو تقویت دیتی رہی۔ مضبوط قوتوں کے خلاف آواز آٹھانے کی روایت یہاں بھی نہیں رہی۔ لیکن عدلیہ کے تیور بھی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بدل رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیض آاباد دھرنے کا فیصلہ اور جسٹس وقار سیٹھ کا مشرف غداری کیس کا فیصلہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اب علدیہ بھی وہ نہیں رہی ہے۔
طاقتور حلقوں کا ایک مضبوط قلعہ مذہبی اور دینی جماعتیں رہی ہیں۔ جنہوں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر لبیک کہا۔ اب یہاں بھی صورت حال بدل رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن جو باتیں جس لہجے میں کہہ رہے وہ نہائت قابل غور ہیں۔ انکے دھرنے میں بہت سے مقررین کی تقاریر اگرچہ ٹی وی پر جگہ نہ پا سکیں۔ لیکن جن لوگوں نے ان تقاریر کو دھرنے میں سنا ہے اور ان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانات پر دھرنے کے شرکاء کا رد عمل دیکھا ہے اسکو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ قلعہ بھی طاقتور حلقوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کو سب سے بڑا دھوکہ تحریک انصاف نے دیا ہے۔ انہوں نے "ایپمائر کی انگلی” سے لے کر "محنت کرنے والے بیان تک” اپنی ہر خامی کا بوجھ اپنے لانے والوں پر ڈال دیا ہے۔ آج اگر تحریک انصاف کے ووٹرز سے بات کریں تو وہ چند لمحوں میں واضح کر دے گا کہ عمران خان کیوں ناکام ہو رہے ہیں اور کون ان کو کام نہیں کرنے دے رہا۔ درون خانہ عمران خان معیشت کی بربادی کو کوئی بھی زمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ امکان یہی ہے کہ وقت آنے پر وہ عوام کے پاس ضرور جائیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ انکی ناکامی کا سبب کون تھا۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو الیکشن دو ہزار اٹھارہ کے بعد سب فریقین نے اپنا اپنا بہت نقصان کیا ہے۔ کس نے کتنا نقصان کیا ہے؟ کس کا نقصان عظیم ہے اور کس کا نقصان عارضی ہے ، اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔ لیکن اس معاملے میں سب سے خاموش سٹیک ہولڈر کا سب سے بڑا نقصان ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے چکر میں جس طرح پس رہے ہیں وہ الم ناک ہے اور اس جانب کوئی نہیں سوچ رہا۔
ذاتی مفاد کے لیئے اس ملک کے عوام اور معیشت کو بھینٹ چڑھا دینا پرانی روایت ہے۔ لیکن اس دفعہ معیشت جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس سے نقصان صرف معشیت کو نہیں ہو گا۔ حالات اب ملکی سلامتی کے لیئے خطرہ بن گئے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار اس موقع پر چپ رہنے والے، اس موقع پر جھوٹ بولنے والے اور اس موقع پر دھونس دھاندلی والے ہوں گے۔
آخر میں بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ایک فلم بنی تھی ” تارے زمین پر ” ہمارے سیاسی افق پر آج کل جو فلم چل رہی ہے اسکا نام ہونا چاہیئے ” سارے زمین پر”