کورونا وائرس! تو کیا غلط کہا تھا؟
Reading Time: 4 minutesایک مکمل تحقیق اور ریسرچ کے بعد میرا کالم بارش کا پہلا قطرہ بنا تھا جس میں پہلی بار اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس ایشیائی اور افریقی ممالک میں وہ تباہی نہیں مچا سکے گی جو اس نے مغربی ممالک اور خصوصًا یورپ میں مچا دی ہے۔ (یہ کالم دو اھم ویب سائٹس کے علاوہ اخبارات نے بھی شائع کیا)
میرے استدلال کی بنیاد ان ممالک میں ملیریا اور فلو جیسی بیماریوں کا عام ہونا اور اس کے مقابلے میں یہاں کے لوگوں کا فطری طور پر مضبوط قوت مدافعت (immunity system) کا پروان چڑھنا ہے ، جو کورونا وائرس پر حاوی دکھائی دے گا۔
چونکہ اس کالم میں پہلی بار ایک نئی لیکن اُمید افزا تحقیق اور نقطئہ نظر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی ۔
اس لیے اس تحریر کو جہاں مبالغہ آمیز پذیرائی اور پسندیدگی ملی وھاں بعض لوگوں نے مجھے پاگل اور جاھل کے القابات اور خطابات بھی دیے۔
ظاھر ہے یہ رائے مخالف سمت میں تیرنے کے مصداق تھی لیکن میرے سورس اعلٰی درجے کے طبی ماہرین خصوصًا ایک اھم مائیکرو بیالوجسٹ ہی تھی ،اس لئے اس “بھونچال” میں بھی میں اپنی بات پر قائم رھا اور سوشل میڈیا اور دوسرے فورمز پر اپنے دلائل کے ساتھ لڑتا رہا۔
اب آتے ہیں کورونا وائرس کے حوالے سے موجودہ صورتحال کی طرف !
امریکہ اور پاکستان میں ایک ہی دن پہلے کورونا وائرس کے مریض کی نشاندہی ہوئی تھی لیکن آج (یکم اپریل) کو امریکہ میں کنفرم مریضوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ اموات چارھزار سے اُوپر جاچکے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں کُل مریضوں کی تعداد دو ھزار جبکہ ابھی تک اموات صرف اٹھائیس ہوئے ہیں حالانکہ بعض اموات کی میڈیکل ھسٹری کچھ اور بتا رھی ھے ۔
اس کے علاوہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں امریکہ میں نوسو افراد کورونا وائرس سے چل بسے جبکہ پاکستان میں صرف ایک کیس (موت) ریکارڈ ہوا ۔
اگر ہم باقی مغربی دنیا پر نگاہ ڈالیں تو وھاں کے اعداد و شمار انتہائی خوفناک اور دل دھلادینے والے ہیں ۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق یکم اپریل تک اٹلی میں ایک لاکھ پانچ ھزار سات سو بیانوے کنفرم کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اموات ساڑھے بارہ ھزار تک پہنچ چکے ہیں ۔
سپین میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعدادپچانوے ھزار نوسو تئیس جبکہ آٹھ ھزار چار سو چونسٹھ اموات ابھی تک ریکارڈ ہوئے ہیں ۔
جرمنی بھّتر ھزار مریضوں اور سات سو پچھتر اموات جبکہ فرانس تریپن ھزر مریضوں اور ساڑھے تین ھزار سے زائد لاشوں کے ساتھ لھولھان ہے ۔
جبکہ اس کے برعکس ایشیائی اور افریقی ممالک میں صورتحال بہت بہتر ہے ۔ پاکستان کا ذکر تو میں پہلے ہی کر چکا اس لئے دوسرے متعلقہ ممالک کی ڈیٹا پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں ۔مثلاً ایک ارب تیس کروڑ آبادی والے ھندوستان (جہاں بے تحاشا غربت ھے اور صحت کی سہولیات بھی مفقود ہیں ) میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تین ھزار سے کم جبکہ کُل اموات پچاس کے قریب ہیں جبکہ ڈیڑھ سو مریض صحت یاب بھی ہو چکے ہیں ۔
سعودی عرب میں ابھی تک پندرہ سو تریسٹھ کورونا وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ کُل اموات کی تعداد صرف دس ہے جبکہ ایک سو پینسٹھ مریض مکمل طور پر صحت یاب بھی ہو چکے ہیں ۔
بنگلہ دیش میں ساٹھ مریض جبکہ پانچ اموات ہوئی ہیں ان میں پندرہ لوگ صحت یاب بھی ہو چکے ہیں ۔
متحدہ عرب امارات میں چھ سو چونسٹھ کورونا مریضوں کی نشاندہی ہوئی جن میں چھ اموات ہوئیں جبکہ اکسٹھ مریض مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہیں ۔
اس طرح افغانستان میں یکم اپریل تک دو سو مریض اور چار اموات جبکہ پانچ مریض صحت یاب بھی ہو چکے ہیں حالانکہ افغانستان میں صحت کی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
محترم قارئین !!!
یہ ہے موجودہ ڈیٹا کا تقابل اور وہ واضح فرق جس کی نشاندہی سب سے پہلے ایک تھکا دینے والی تحقیق کے بعد میں نے مارچ کے مہینے میں آپ کے سامنے رکھی تھی ۔
(بعد میں کئی ٹاک شوز اور کالم نگاروں نے بھی اسی موضوع کو آگے بڑھا یا).
لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی احتیاط کا دامن ھر گز نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ بدلتے ہوئے موسم میں خدانخواستہ یہ اجنبی وائرس کہیں پلٹ کر شدت کے ساتھ حملہ نہ کر دے.
ایک بات اور !
پچھلے کالم ( کیا کورونا وائرس پاکستان میں زیادہ تباہ کن نہیں )
کے حوالے سے بعض قارئین نے سوال اُٹھایا تھا کہ اگر ایشیائی اور افریقی ممالک ،مغربی ملکوں کی نسبت قدرے محفوظ ہیں تو پھر ایران میں تباہی کیوں پھیلی ؟
یہ سوال بہت اھم ہے اور مجھے اعتراف ہے کہ میں نے تب اس حوالے سے وضاحت نہیں کی تھی لیکن خیر دیر آید درست آید کے مصداق اب ہی بتاتا چلوں کہ ایران گو کہ جغرافیائی حوالے سے ھمارا پڑوسی ملک ہے لیکن ایران کا موسم، ٹمپریچر، ماحول اور وھاں کے لوگوں کا رھن سہن بودوباش اور خوراک یعنی سب کچھ ہم سے یکسر مختلف اور یورپی ملکوں کے قریب تر ہے جس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت اورفطری قوت مدافعت مغربی ملکوں سے ملتی جلتی ہے اور ظاھر ہے اس تمام پس منظر کی وجہ سے کورونا وائرس کا اثر بھی مغربی ممالک جیسا ہی رہا۔
جاتے جاتے ابن خلدوں کی بات یاد آئی اگر ذرا گہرائی کے ساتھ سوچ لیں تو اسی موضوع (قوت مدافعت یا جینیاتی ساخت)سے متعلق بھی ہے اور اس موضوع کو سپورٹ کرتے ہوئے بھی.
ابن خلدون نے لکھا ہے کہ تُرک قوم گھوڑے کا گوشت کھاتی ہے اس لئے ان میں سرکشی اور مستی بہت ہے۔
افریقی ممالک میں بندر کے گوشت کا استعمال ہے اس لئے ان کی زندگی پر بے حیائی غالب ہے جبکہ عرب اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں سو ان میں کینہ اور انتقام کا جذبہ بہت ہے۔
گویا لبات وہی ہے یعنی خوراک اور آب و ہوا سے بنتا ایک خطے کے لوگوں کا مزاج اور جسمانی ساخت جس میں قوت مدافعت اھم ترین جزو ہے، اور یہی تو میں کہہ رہا ھوں.