کالم

جرمنی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟

اپریل 8, 2020 4 min

جرمنی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟

Reading Time: 4 minutes

دہسار ملک ۔ جرمنی

(تیسری قسط)

کرونا یا جنگ عظیم سوم بپا ہے؟

جرمنی نے اپنی عوام کو ضروریات زندگی کی سپلائی چین مینجمنٹ اور ہسپتالوں اور صحت کے نظام کی صورتحال پر مکمل اطمینان اور یقین کے بعد مزید کیا اقدامات کئے؟
ان کا ذکر کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں۔

دنیا کی کسی بھی فٹبال ٹیم کو لیں تو آپ اور میں اس ٹیم کو ماضی یا حال کے چند کھلاڑیوں کے نام سے جانتے ہیں، جیسے ہم پاکستانی کرکٹ کو عمران خان، وسیم اکرم اور جاوید میاںداد وغیرہ کے نام سے جانتے ہیں۔ جرمنی نے فٹ بال کے اپنے ستر سال سے زیادہ دور میں ایک ورلڈکپ کے علاوہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ ناک آؤٹ راؤنڈ میں نہ پہنچے ہوں لیکن پھر بھی جرمنی کا شاید ہی کوئی ایسا کھلاڑی ہو، جس کے بارے میں فٹبال کی درمیانی سطح کی معلومات رکھنے والے فرد کو معلوم ہو۔

کسی نے ایک مرتبہ جرمنی کے فٹ بال کوچ سے پوچھا کہ پرتگال کے پاس رونالڈو ہے، برازیل کے پاس رونالڈینو ہے، کاکا ہے، ارجنٹینا کے پاس میسی ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن جرمنی کے پاس کیا ہے؟ اس نے جھٹ سے جواب دیا "جرمنی کے پاس ٹیم ہے۔“

تو اس کرونا کے مقابلے میں بھی جرمنی کے پاس جو اصل گیڈر سنگھی ہے، وہ اس کی ٹیم ہے۔

آٹھ کروڑ سے زیادہ لوگوں کی ٹیم ان کی عوام ہے، جن کا اجتماعی شعور و دانش تو شاید دوسرے ممالک سے کچھ تھوڑا سا ہی بہتر ہو، لیکن ان کی اجتماعی قانون کی پابندی و پاسداری مثالی سے کہیں زیادہ ہے۔

جرمنی کے حالیہ سروے کے مطابق ملک میں 41 فیصد لوگ کرونا کو سنجیدہ لے رہے ہیں، جبکہ 90 فیصد سے زیادہ لوگ قانون کی پابندی اور پاسداری کر رہے ہیں، یعنی اکثریتی عوام نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کر رہے ہیں۔ آٹھ کروڑ عوام اور سب سے اوپر سیاسی حکومت، جن کے درمیان میں لاکھوں کی تعداد میں مینیجر ہیں، یہ سارے مینیجر اپنا اپنا کام کر رہے ہیں اور کسی دوسرے کے کام میں ٹانگ نہیں اڑا رہے۔ سیاسی قیادت ان مینیجرز کی کارکردگی کو حالات و واقعات کی مناسبت سے مسلسل مانیٹر کر رہی ہے، اور تیز ترین قوانین سازی کے ساتھ ساتھ گھنٹوں کے حساب سے فیصلے لے رہی ہے۔

شروع میں کرونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بے شمار ٹیسٹ کیے، لیکن جیسے ہی پتہ چلا کہ اس سے بڑھنے کو نہیں روک سکے تو غیر ضروری ٹیسٹ بند کر دئیے۔ اس سے شرح اموات میں میں خاطر خواہ اضافہ تو ضرور ہوا یعنی شرح اموات 0.2 فیصد سے 1.7 فیصد پر پہنچ گیا۔ شاید ایسا نہ کرتے تو انسانی صلاحیتیں اور وسائل شل ہو جاتے اور اس سے کہیں زیادہ بڑا انسانی نقصان ہوتا ہے۔ اس وقت بھی جرمنی کے ہسپتالوں کے کرونا کے مریضوں میں 20 فیصد تک اٹلی اور فرانس کے باشندے ہیں۔ کرونا کا اس وقت کوئی بھی قابل اعتماد ٹیسٹ ایسا نہیں ہے کہ جس کا نتیجہ ایک دن سے پہلے آ جائے اور لیبارٹریوں کی بھی اپنی ایک حد ہے۔ جرمنی آج 7 اپریل 2020 تک دس لاکھ کے قریب ٹیسٹ کر چکا ہے اور مریضوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

"Robert Koch Intstiute”
رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ جرمنی کا حکومتی امداد سے چلنے والا وہ ادارہ ہے جو صحت کے حوالے سے تمام اعدادوشمار جمع کرتا ہے اور اس کے متعلق ساری ریسرچ کو مانیٹر کرتا ہے ریگولیٹ کرتا ہے اور صحت کے حوالے سے اپنے مشورے سفارشات دیتا ہے۔ حکومت ان مشوروں کو انتہائی سنجیدہ لیتی ہے اور اس کے اعتبار سے تمام قانون سازی اور احکامات جاری کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں کوئی دانشور، کوئی بڑی یونیورسٹی کا پروفیسر، بہت بڑا ڈاکٹر یا معالج ذاتی حیثیت میں اپنی کوئی ویڈیو جاری نہیں کرتا، بلکہ اپنے مشورے صرف یہاں پہنچاتا ہے اور یہاں پر ایک بہت بڑی ٹیم ان پر غور و فکر کرنے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ "کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط”۔

مثال کے طور پر حال ہی میں کرونا پر ابھی تک کی پوری ریسرچ اور تجزیے کے بعد اور اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے، رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ نے یہ کہا کہ ماسک پہننے کا فائدہ دوسروں کو وائرس سے محفوظ کرنا تو ہو سکتا ہے لیکن خود کسی صورت نہیں بچا جاسکتا بلکہ ماسک پہن کر انسان کی سانس سے نم ہونے کی وجہ سے انسان کو خود کرونا لگنے کا امکان زیادہ ہے۔

سوشل فاصلہ کے اعتبار سے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ نے جو سفارشات اور مشورے دیئے ان پر من و عن عمل ہورہا ہے اور حکومت کی تمام مشینری اس پر عمل درآمد کے لیے کوشاں ہے لیکن اگر 90 فیصد عوام اس پر خود سے عمل نہ کریں اور حکومت کا ساتھ نہ دیں تو حکومتی مشینری بہت جلد ناکارہ اور مفلوج ہو جائے گی۔

اپنی سفارشات کی روشنی میں اس انسٹیٹیوٹ کے حکومت کو دئے گئے تین ٹارگٹ جو کہ درج ذیل ہیں۔
نمبر ایک :
کرونا سے ایکٹیو متاثرین کی تعداد کا دس دن میں دو گنا ہونا، پہلے دوگنا ہونے کی رفتار دو سے تین دن تھی، اس ٹارگٹ کو دو دن پہلے ہی حاصل کرلیا گیا اور اب آگے کا ٹارگٹ بیس دن کی طرف گامزن ہے۔


نمبر دو :
پہلے کرونا کے ایک متاثر سے تین سے پانچ افراد متاثر ہورہے تھے- ان کی دی ہوئی سوشل فاصلہ کی سفارشات میں ایک فرد سے اوسط صرف ایک فرد کو کرونا لگنا اگلا ٹارگٹ تھا- یہ بھی آج سے چار دن پہلے حاصل کرلیا گیا ہے- اب اگلا ٹارگٹ ہے دو سے ایک متاثرہ اور اس سے اگلا ٹارگٹ دس سے ایک فرد کی طرف جانا ہے- اسے آئندہ دس دنوں میں یقینی بنانا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس کی مانیٹرنگ کرنی ہے کہ سفارشات کافی ہیں یا ناکافی۔
نمبر تین :
صحت یاب ہونے والوں کی تعداد کو متاثر ہونے والی تعداد سے بڑھانا ہے- ایسے میں ہسپتال کبھی بھی اپنی حد کو نہیں پہنچیں گے- بلکہ بیرون ملک سے مزید مریض لینے کے قابل بھی ہو جائیں گے- یہ ٹارگٹ آئندہ تین سے چار دن میں متوقع ہے۔

جرمن میں کہتے ہیں کہ
In Ruhe liegt die Kraft ا
the strenght is to be found in serenity ا
باقی آئندہ

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے