متاثرین کی تدفین کی تشہیر سے خوف
Reading Time: 3 minutesتحریر: عبدالجبارناصر
کورونا وبا کا عام لوگوں میں اتنا خوف اور دہشت ہے کہ اگر کسی کو پتا چلے کہ اس کو یا اس کے کسی عزیز یا دوست کو کورونا ہوا ہے تو ٹھیک ٹھاک شخص کی آدھی موت واقع ہو جاتی ہے یعنی اس کی نصف مدافعت ختم ہوجاتی ہے اور وہ بندہ یا اس کے عزیز و اقرباء یا دوست اگرچہ ظاہر نہیں کر رہے ہوتے ہیں مگر عملاً بس انتظار ہی کر رہے ہو تے ہیں۔
اس خوف دہشت کی اصل وجہ لوگوں میں موت کا خوف نہیں بلکہ حکمرانوں اور افراد کی سنسنی خیزی اور تدفین کے حوالے سے سوشل میڈیا میں سامنے آنی والی بعض درست اور بیشتر جعلی تصاویر اور ویڈیوز ہیں۔
جمعرات(21 مئی 2020ء) کو کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ ’’کورونا سے مرنے والوں کی تدفین کی ویڈیوز او ر تصویر کشی بالخصوص ان کی تشہیر کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے“ کیونکہ یہ تصاویر اور ویڈیوز دیکھکر اچھا بھلا انسان نیم مریض اور مریض نیم مردہ عملاً بن جاتا ہے ۔ حکومتوں نے اس عمل پر پابندی نہ لگائی تو لوگ نفسیاتی مریض بن جائیں گے اور ہمیں پھر ہسپتالوں کی بجائے پاگل خانوں کی ضرورت پڑے گی۔ کورونا کے خوف کا یہ عالم ہے کہ اب بیماروں نے ہسپتال جانا ہی عملاً ترک کیا ہے، الا یہ کہ صورتحال زیادہ سنگین ہو۔ کورونا خوف کی وجہ سے دیگر امراض کے کئی سنجیدہ مریض بھی ہسپتال جانے سے گریز کرتے ہیں اور اس کا نتائج بعض اوقات سنگین نکلتے ہیں۔
ذاتی مطالعے ، مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں عرض یہ ہے کہ یہ وبا اس حد تک تو خطرناک ضرور ہے کہ یہ بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی ہے اور کمزور مدافعت والوں کو فوری متاثر کرتی ہے ۔
ہمارے ایک دوست اور بہترین ہیلتھ رپورٹر کے مطابق اگر 100افراد کو وبا متاثر کرے گی تو ان میں سے 80 میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوگی اور ٹیسٹ نہ کرائیں تو انہیں یہ علم بھی نہیں ہوگا کہ وہ کورونا سے شفایاب ہوچکے ہیں۔ باقی 20 میں سے 15 میں ہلکے پھلکے اثرات ہوں گے اور باقی 5 میں کو ہسپتال کی ضرورت ہوسکتی ہے ۔ متاثرین کو چند اقدام کرنا ہوں گے۔ ۔
(1)خدانخواستہ ٹیسٹ مثبت آتاہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، بلکہ اپنے آپ کو سبھالنے کی ضرورت ہے ۔
(2)اگر مریض میں کوئی خاص علامت یا زیادہ علالت نہ ہو تو اپنے گھر میں تنہائی اختیار کریں ، تاہم جگہ ایسی ہو کہ جہاں بیت الخلاء سمیت دیگر سہولیات ہوں اور وقت گزاری کے لئے عبادات، مطالعہ ، روز کمرے کی صفائی اور دیگر مصروفیات بہترین ہیں ۔ گھر میں جگہ نہ ہو تو بہت ہی مجبوری میں حکومتی قرنطینہ سینٹرز منقتل ہوجائیں اور وہاں وی وی آئی پی یا وی آئی پی سہولیات کی توقع نہ رکھیں اور اپنی حفاظت یعنی احتیاط خود ہی کریں۔
(3)اگر آپ متاثر ہیں تو دوسروں کو متاثر ہونے سے بچانے کے لئے مریض گھروالوں ہدایت کرے کہ وہ مکمل احتیاط کے ساتھ آپ کی اشیاء ضروری دروازے کے ساتھ رکھیں اور خود اس وقت دروازے سے یا اس مقام سے کچھ فاصلے پر جائیں ، تاکہ مدد گار کے متاثر ہونے کے امکانات کم سے کم ہو اور مدد گار بھی پریشان نہیں ہوگا۔
(4)اس اندازہ میں کھانہ یا دیگر اشیاء ضرورت کی فراہمی کو مریض اپنی توہین یا تذلیل یا تضحیک نہ سمجھے بلکہ یہ ایک مجبوری اور احتیاط ہے۔
(5)ٹھنڈے پانی یا ٹھنڈی اشیاء کا مکمل بائیکاٹ کریں الا یہ کہ ڈاکٹر آپ کو کوئی چیز تجویز کریےاور پانی کا استعمال مناسب ضرور کریں اور کھانہ بھی ۔
(6)گرم پانی کی بھاپ ضرور لیں اور تکلیف ہویا پہلے سے کوئی مرض ہے توڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ادویات بھی ۔
(7)مریض خود اپنے استعمال کے برتن (اگر ضائع کرنے والے ہیں تو)اور دیگر کچرا ایک جگہ جمع کرے اور مکمل پیک کرکے پھینک نے کے لئے مدد گار کو فراہم کرے۔
(8)مریض (اگر اس قابل ہو تو)کوشش کرے کہ کمرے کے اندر کئی کام خود کرے اور باربار مدد گار کو نہ پکاریں ۔
(9)کورونا کے حوالے سے مین میڈیا اور سوشل میڈیا سے دور رہیں ۔
(10)مریض مستند ڈاکٹر سے ہدایت ضرور لیں ، خود علاج(یعنی دوا کا استعمال یا تجویز ) کرنے سے مکمل گریز کریں ۔
آخر میں تمام قارئین سے خاص گزارش ہے کہ ’’کورونا میں جاں بحق ہونے والوں کی تدفین کی ویڈیوز او ر تصویر کشی بالخصوص اس کی تشہیر کو قابل تعزیر جرم قرار دینے ‘‘ کی تجویز سے متفق ہیں تو اس مطالبے کو عام اور ہر ممکن تشہیر کریں ، تاکہ خوف اور دہشت میں کمی آئے۔