کالم

کیا آپ بھی پورن دیکھتے ہیں؟

جون 16, 2020 3 min

کیا آپ بھی پورن دیکھتے ہیں؟

Reading Time: 3 minutes

(پہلا حصہ)
سال 2018 میں گوگل کی جانب سے ایک سروے میں پاکستان کو فحش ویب سائٹس دیکھنے والے ملکوںمیں سرفہرست قرار دیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ سب سے زیادہ فحش مواد دیکھنے والے 10 ممالک میں پہلے 6 مسلمان ممالک ہیں جس میں بالترتیب پاکستان ، ویت نام اور مصر پہلے نمبروں پر ہیں۔
ہو سکتا ہے آپ اس بات کو درست نہ سمجھیں یا مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا قرار دیں لیکن اگر ہم چند لمحے کیلئے مان لیں کہ یہ رپورٹ درست ہے تو سوال اٹھتا ہے، آخر کیوں ؟
کیوں پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک فحش دیکھنے میں زیادہ دلچپسی لیتے ہیں ؟


فائٹ دا نیو ڈرگ نامی ایک تنظیم کے مطابق دنیا کا 60 فیصد فحش مواد امریکہ سے جاری ہوتا ہے 42 کروڑ 80 لاکھ ویب گاہوں اور پرسنل پروفائل پیجز کے ساتھ یہ کام جاری ہے۔ دوسرے نمبر پر ہالینڈ 27 فیصد حصہ کے ساتھ اور برطانیہ 7فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

اگر آپ ان اعداد کو دیکھیں تو مغرب کے تیار شدہ فحش مواد کے بڑے دلدادہ اسلامی ممالک کے شہری ہیں ، لیکن سوال پھر وہی کہ آخر کیوں ؟

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی سائیکالوجسٹ سدرہ اختر سے یہی سوال کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پہلی وجہ دیر سے شادیوں کا رجحان ہے جبکہ دوسری بات مذہبی سختی بھی ہے کیونکہ بغیر مذہبی بندھن کے جنسی زندگی کا تصور ممکن نہیں اس لیے لوگ فحش ویڈیو دیکھ کر گزارا کر لیتے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ ہم براہ راست تو گناہ نہیں کر رہے اور فحش مواد دیکھنے کو گناہ کم ہی لوگ سمجھتے ہیں۔

دوسرے سوال پر سائیکالوجسٹ نے کہا اسلامی ملکوں میں فحش ویب سائٹس دیکھنے کا زیادہ رجحان اس لیے بھی ہے کہ ہمارے ہاں قحبہ خانے یا جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے مغرب کی طرح کے ذرائع موجود نہیں اور خواتین مذہب کے معاملے میں سخت گیر ہیں۔ چونکہ یورپ کی نسبت اسلامی ممالک میں جنسی حوالے سے بات کرنے پر پابندی ہے اس لیے لوگوں میں تجسس Curiosity بھی زیادہ ہے۔

عوام کی رائے میں بعض دوستوں نے اس کو وقت کا ضیاع کہہ کر جواب دیا کہ وہ اب دیکھنا چھوڑ چکے ہیں تو کچھ کا کہنا تھا کہ فرسٹریشن دور ہوتی اور سکون ملتا ہے۔

پاکستان میں فحش ویب گاہیں پاکستانی حکومت کی جانب سے بند کردی گئیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے 8 لاکھ سے زیادہ ایسی ویب گاہیں بند کی ہیں جن میں جنسی مواد نشر کیا جاتا تھا
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان ویب سائٹس کو بند کرنے سے فحش مواد تک رسائی بھی ختم ہوئی ہے یا نہیں ؟

پاکستان جیسے ممالک میں فحش مواد تک رسائی کا بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ٹولز ہیں۔ ٹوئٹر، انسٹا گرام، فیس بک اور خاص کر واٹس ایپ پر یہ مواد آپ کو فری میں ملے گا اور اگر اس کے باوجود آپ نے ویب سائٹ پر ہی جانا ہے تو ان ویب سائٹس کو پراکسی یا وی پی این کے ذریعے باآسانی کھول سکتے ہیں ۔

آپ گوگل پر سیکس گروپ لکھیں ہزاروں لنکس ملیں گے، کسی بھی گروپ کا حصہ بن سکتے ہیں اور فحش ویڈیوز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔۔ اور گروپس بھی اسی طرز کے ہیں جس طرز کی آپ کو جنسی تسکین چاہیے۔

ہم نے Covertly کچھ گروپس کا حصہ بن کر مشاہدہ کیا ہے کہ چند ایک گروپ چھوڑ کے دیگر فحش گروپس میں جو مانگ کی جاتی ہے وہ بچوں سے جنسی عمل کی ویڈیوز کی ہے اور یہ ویڈیوز کوئی فحش ویب سائٹس جاری نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر یورپین ممالک کے لوگوں کی ویڈیوز ہوتی ہیں جو خود خاص طور پر بچیوں کو جن کہ عمر 5 سال یا کم ہوتی ہے ان سے جنسی عمل کرتے ہوئے بناتے ہیں اور پھر اس کو بیچا جاتا ہے۔
بچوں سے جنسی زیادتی میں سوشل میڈیا کا کردار کتنا ہے ؟
ایک طرف تو ہزاروں کی تعداد میں ویڈیوز موجود ہیں اور ان کے صارف زیادہ تر 20 سال تک کی عمر کے جوان ہیں۔

سٹڈیز اور اعداد وشمار بتاتے لڑکوں کا زیادہ رجحان ان خواتین کی ویڈیوز کی طرف ہے جن کی نسوانیت عام لڑکیوں سے زیادہ ہے جبکہ خواتین میں چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی عمل کی ویڈیوز مانگنے اور دیکھنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔

پاکستان میں حالات گھمبیر ہیں یہاں بھی بچوں سے زیادتی کا عمل کیا جا رہا ہے
آپ سوچیے لاک ڈاؤن یا اپنے کمرے میں ہر کسی کے پاس موبائل کے ذریعے ان ویڈیوز تک رسائی حاصل ہے لیکن اس جنسی عمل کے لیے جنس مخالف کی عدم موجودگی اور بچوں تک آسان رسائی موجود ہے۔ دماغ میں موجود جنسی تسکین کا بھیڑیا ایسے حالات میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے بہت سے پہلو باقی ہیں اس لیے ایک سے زائد تحریروں میں احاطہ کیا جائے گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے