گوجرانوالہ براستہ ’ریاست مدینہ’
Reading Time: 3 minutesکبھی کچھ حادثوں کی خبر سماعتوں کو یوں ہلا کررکھ دیتی ہے جس کی شدت سے دماغ سوچنے اور زبان کچھ کہنے سے قاصر ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر کے تمام دلخراش لفظ بھی اکٹھےکر لیے جائیں پھر بھی ایک جملہ تک نہیں بن پاتا جس سے دل کی تکلیف کو بیان کیا جا سکے۔ بس جو قصہ سن رہے ہوتے ہیں اسے خیال میں لا کر دل پسیج جاتا ہے کہ کس بے حس معاشرے میں زندہ ہیں۔ ہم جہاں بے غیرتوں کوغیرت مندی کا تمغہ حاصل کرنے کے لیے ماں ، بہن ، بیوی یا بیٹی کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے تودوسری جانب انہی درندوں کی حوس سے کوئی بچی ،لڑکی ،عورت حتی کہ جانور بھی محفوظ نہیں ہیں۔
روزایک نیا حادثہ روز ایک نیا ماتم، انہی حادثات اور خوف کے پیش نظر والدین بیٹیوں کے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں اور اگر ہمت کر کےانہیں کھل کرسانس لینے کی اجازت دے بھی دیں تو کوڑے دانوں ، کھیتوں ، قبرستانوں یا جنگلوں میں تشدد زدہ حالت میں زندہ یا مردہ پائی جاتی ہیں ۔ کسی نے کیا خوب لکھا تھا کہ بہتر یہی کہ عورت کو ستر پردوں میں لپیٹ کر کسی محفوظ مقام پر رکھ دیا جائے اور جب اس کا دم گھٹنے لگے تو اسے بتایا جائے کہ آپ کے ساتھ یہ سلوک اس لیے روا رکھا گیا کہ آپ بڑی نایاب چیزہیں ۔ مگر اب تو یہ لفظ بھی بے کار ہوتے نظرآ رہے ہیں کہ عورت کے لئے محفوظ مقام ہے کون سا؟ بھلا بتائیے ؟ اپنے گھر ، دفتر، بازار ، سڑک اور اب تو قبرمیں بھی محفوظ نہیں ہے ۔
عورت کی بے حیائی کا رونا رونے والے اس پر کیا تاوِیل پیش کریں گے ؟ قبر میں تواس کے جسم پر چست لباس کی جگہ ڈھیلا ڈھالا کفن ہے چہرے کی لالی زردی میں بدل چکی ہے نہ ہی جسم سے کوئی مہنگے پرفیوم کی خوشبواٹھ رہی ہے تو کیا چیز بہکا دیتی ہے درندوں کو؟
اب تو کف افسوس ملنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نظرنہیں آتا کس کس چیزرونا روئیں معاشرے کی غلاظت اورنا انصافی پر بات کریں یا حکمرانوں کی نا اہلی پر جہاں معاشرہ اورریاست دونوں ہی عورتوں اوربچوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ جہاں راہ چلتی عورت پر آوازیں کسی جائیں یا اس کے جسم سے ہاتھ لہرا دیا جائے تو وہ بیچاری اسی خوف سے نہ بول سکے کہ الٹا اسی کا تماشہ بنے گا۔ دفاتر میں اسی ڈرسے خاموشی کے ساتھ ہراسانی کا شکار ہوتی رہے کہ کہیں شکایت کی تو کیچڑ اسی کے کردار پر اچھالا جائے گا ۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں پہلے ہی عورت پر ہونے والے ہر ظلم کی قصور وار خود عورت کو ٹھہرایا جاتا ہو وہاں کسی اعلی افسر کی جانب سے ایسا بیان سامنے آجانا جس میں وہ اپنی نا اہلی چھپانے کی خاطر وکٹم بلیمنگ کا سہارا لیں افسوسناک ہے۔
سی سی پی او صاحب عورت جانتی تھی کہ یہ فرانس نہیں ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ وہ مدینہ کی ریاست نہیں ہے جس کے خواب دکھائے گئے ہیں۔
وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ عوام کےٹیکسزسے بنائی جانے والی فورسز حکمرانوں کے محلات کی حفاظت پر مامُور ہیں
وہ نہیں جانتی تھی کہ عوام کے لئے صرف وہ ہیلپ لائنز ہیں جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اپنی اوقات اور حدود کا تعین کرتی رہتی ہیں اور بھیڑیے بے خوف و خطرلوگوں کی عزت پامال کرتے رہتے ہیں ۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ یہاں عوام کے محفاظوں کو سیاسی بنیادوں پر عہدوں پر بٹھانےاورہٹانے کی مصروفیت میں عوام کی جان ومال اور عزت کو داؤ پر لگایا جا تا ہے۔
وہ یہ بھی نہیں جانتی ہو گی کہ یہاں انصاف کی خاطر در درکی ٹھوکریں کھاتے مظلوموں کی نسلیں رل جاتی ہیں اور ظالم پھر بھی سرعام دندناتے پھرتے ہیں۔
جہاں محافظوں کے سربراہ اپنے فرائض کی انجام دہی سے بے بہرہ تمام شاہراہوں کو محفوظ بنانے کی بجائے غلط اور صحیح راستے کا انتخاب کرنے کے عذر بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جناب اعلیٰ ! آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ موٹروے پر سفر کرنا ہی زیادتی کا نشانہ بننے کا سبب ہے تو تونسہ شریف میں بچوں کے سامنے ماں کے ساتھ اس کے گھر پر زیادتی کی وجہ یقینا آپ کے نزدیک یہی ہو گی کہ اکیلی عورت اپنے گھر پر کیوں تھی؟
خدارا اپنی نا اہلیوں کو چھپانے کے لیے یکے بعد دیگرے لایعنی بیانات دینے کے بجائے اپنی کارکردگی پر دھیان دیجئے اور اس ریاست کو واقعی مدینہ کی ریاست بنانے میں اپنا کردار ادا کیجئے جہاں انصاف کا بول بالا ہو، جہاں لوگوں کی جان و مال اور عزت محفوظ ہو۔