موٹروے واقعہ قومی رویے پر نہ ڈالیں
Reading Time: 3 minutesپہلے ہم روزی گیرئیل کی مثال لیتے ہیں ، یہ جوان غیر ملکی لڑکی سالہاسال سے گلگت بلتستان اور خیبر پختون خواکے جنگلوں اور پہاڑوں سے پنجاب اور سندھ کے میدانوں اور بلوچستان کے صحراؤں تک اپنی موٹر سائیکل پر اکیلے گھومتی رہتی ہے ۔
اسی پاکستان کے لوگوں کے رویے اور اخلاق نے روزی گیرئیل کو اس حد تک متاثر کیا کہ وہ مسلمان ہوگئی ۔
اپنے ایک سوشل میڈیا بلاگ میں اس نے ایک بار لکھا تھا کہ پاکستان کا ہر مرد میرا محافظ ہے اور میں پوری دنیا میں سب سے ذیادہ محفوظ خود کو پاکستان میں تصور کرتی ہوں اور یہی میرا عملی تجربہ بھی ہے ۔
احمد رحیم میرا قریبی دوست اور پیشے کے لحاظ سے انجینئیر ہے وہ پندرہ ساپرانا واقعہ سناتا ہے کہ شادی کے بعد بیوی کو لے کر قدرے غیر محفوظ پہاڑی علاقے گیا ایک ریسٹ ھاؤس میں ٹھرا ہوا تھا کہ رات کے وقت اچانک اھلیہ کی طبیعت خراب ہوگئی ،اس جنگل میں نہ کوئی ھسپتال تھا نہ ہی کوئی ڈاکٹر اس لئے ایک سراسیمگی کے ساتھ پر خطر علاقے میں بیوی کو ساتھ لے کر شہر کی جانب روانہ ہوا لیکن چند کلومیٹر دور جا کر گاڑی اچانک بند ہو گئی ۔
اب رات ، جنگل ، خطرہ اور بے بسی ہی ہمارے اردگرد تھے میں شدید پریشانی کے عالم میں تھا کہ اچانک ایک گاڑی قریب سے ہو کر گزری اور کچھ دور جاکر رکی جس سے تین نوجوان باہر نکلے جبکہ ڈرائیور گاڑی میں موجود رہا مجھے شدید خطرہ محسوس ہوا ۔اس لئے گاڑی سے اپنا پستول نکال کر خود کو کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار کر رہا تھا کہ ایک ھینڈ سم نوجوان قریب آیا اور مہذب انداز سے پوچھا کہ سر کیا مسئلہ ہے ؟
میں نے اپنی پریشانی کا بتایا تو کہا کہ فکر نہ کریں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور اپنے ڈرائیور کو بلا کر ھدایات دیں جس نے ڈگی سے رسہ نکالا اور اپنی گاڑی کے ساتھ میری گاڑی کو باندھا اور ہم شھر کی طرف روانہ ہوئے لگ بھگ چالیس منٹ بعد ہم شہر پہنچے تو گاڑی روک کر بتایا کہ آپ بھابھی کو لے کر میرے ڈرائیور کے ساتھ ھسپتال چلے جائیں اور وھاں سے فارغ ہونے کے بعد ڈرائیور آپ کو میرے گھر چھوڑ آئے گا وہاں آپ کےلئے انتظام کر لیا گیا ھے جبکہ آپ کی گاڑی صبح ورکشاپ بھیج دیں گے ۔
اسی رات احمد رحیم کو پتہ چلا کہ اس کا محسن دراصل ایک فوجی کیپٹن ہے اور باقی لوگ اس کے سپاہی تھے ۔
وہ نوجوان کیپٹن آج کل ایک اہم عہدے پر ہے جبکہ احمد رحیم اپنی کنسٹرکشن کمپنی چلا رہا ہے لیکن ایک احسان مندی دونوں کے درمیان ایسا تعلق اور رشتہ بنا گیا کہ بھائیوں کو بھی رشک آنے لگے ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا مجموعی رویہ اور مزاج یہی ہے جس کی میں نے صرف ایک دو مثالیں اوپر بیان کر دیں ۔
یعنی صلہ رحمی احترام انسانیت اور تہذیبی حسن سے مزین رویہ ھی ہمارا مزاج اور تہذیب ھے ہمارا قومی رویہ اور اخلاقیات وہ ھرگز نہیں جو موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ بد قسمتی سے دیکھنے میں آیا ۔
سچ تو یہ ھے کہ دنیا کے سب سے زیادہ مہذب ممالک بھی ان واقعات سے اپنا دامن ابھی تک پوری طرح نہیں چھڑا سکے ہیں.
لیکن اسی پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب سے ھمسایوں اور مسافروں سے مہمانوں تک ایسے ان گنت واقعات روز روز ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں جو خیر نیک احترام انسانیت اور ہمارے تہذیبی روئیے کے حسن کا منہ بولتا ثبوت ہوتے ہیں لیکن اگر اسی تہذیبی حسن میں کوئی درندہ اپنی درندگی سمیت گھس آئے اور قصور کی زینب سے اسلام آباد کی فرشتہ یا ساہیوال سانحے سے موٹروے واقعہ تک اپنی اخلاق باختگی اور درندگی کی بد نما نشانیاں چھوڑ جائے تو یہ کہا ں کا انصاف ہے کہ اسے پوری قوم کے مجموعی اخلاقیات تہذیب اور اجتماعی ذھن پر منطبق کیا جائے ۔
ایسے واقعات کے تدارک اور مجرموں تک پہنچنے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے ہی تو ریاست اور اس کے ادارے تشکیل پاتے ہیں اور یہ ان ھی کی ذمہ داری بھی ہے لیکن بحیثیت قوم ہمیں ایک ہوش و خرد کے ساتھ اپنی روشن روایات ، اخلاقی معیار اور رواداری کے جذبے کے ساتھ خود کو اس درندگی سے الگ رکھنا ہوگا جس درندگی سے معاشرہ ہمیشہ ایک کراہت بھری نفرت کا اظہار کرتا رہا ہے لیکن اگر پھر بھی کوئی بضد ہے کہ اس غلاظت کو پوری قوم ہی کے سر تھوپا جائے تو اس کی حماقت کو زیر بحث لانا بھی کوئی دانشمندی تو نہیں ۔