’کئی چاند تھے سر آسماں‘ کے مصنف شمس الرحمان فاروقی نہ رہے
Reading Time: < 1 minuteانڈیا میں اردو کے معروف شاعر، ادیب اور نقاد شمس الرحمن فاروقی 85 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
شمس الرحمن الہ آباد سے تعلق رکھتے تھے اور ایک عرصے سے بیمار تھے اور دہلی کے ہسپتال ہارٹ سکورٹ میں داخل تھے۔ ان کے لواحقین نے اردو نیوز کو بتایا کہ شمس الرحمن فاروقی کورونا ہو گيا تھا لیکن وہ اس سے صحت یاب ہو گئے تھے۔
شمس الرحمن فاروقی کا شمار اردو کے معروف ادیبوں اور نقادوں میں ہوتا ہے۔ اردو کے معروف شاعر میر تقی میر پر ان کی تصنیف ‘شعر شور انگیز’ انتہائی قابل قدر تصنیف سمجھی جاتی ہے۔
انھوں نے گذشتہ برسوں ایک ناول ‘کئی چاند تھے سر آسماں’ لکھ کر اپنی ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔
ان کو آنکھوں کا مرض لاحق تھا اور اس کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا ہے۔ انھیں آج صبح دہلی سے الہ آباد ان کے گھر لے جایا گیا تھا تاہم وہاں پہنچنے کے 15 منٹ بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔
ان کے بیٹے معروف داستان گو ہیں اور ایک بیٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ انگریزی کی پروفیسر ہیں۔
داستان گوئی کلکٹو نے ایک ٹویٹ کے ذریعے انتقال کی خبر دیتے ہوئے لکھا ’ اردو دنیا کا آفتاب اپنے گھر میں صبح 11 بج کر 20 منٹ پر غروب ہو گیا۔‘
انھیں ’شعر شور انگیز‘ کے لیے سنہ 1996 سرسوتی سمان دیا گیا تھا جبکہ انھیں سنہ 2009 میں انڈیا کا گرانقدر سول اعزاز ‘پدم شری’ سے بھی نوازا گیا۔
ان کی شاعری کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
انھوں نے انگریزی زبان میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیا تھا اور اپنے رسالے ‘شبخون’ کے ذریعے اردو دنیا میں ایک نئی تحریک شروع کی تھی۔