متفرق خبریں

ووٹ دیکھ کر بھی سکریسی متاثر نہ ہونے کا طریقہ بتایا جائے: جسٹس اعجاز الاحسن

فروری 23, 2021 4 min

ووٹ دیکھ کر بھی سکریسی متاثر نہ ہونے کا طریقہ بتایا جائے: جسٹس اعجاز الاحسن

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتحابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ قانون میں جو بھی درج ہے اس پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہوتا ہے، قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے، قانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں، الیکشن اتحاد کی گنجائش سیاسی جماعتوں میں ہمشہ رہتی ہے، ہمارااور آئرلینڈ کا آئین ایک جیسا ہے، آئرلینڈ میں بھی الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہوتا ہے، آئرش سپریم کورٹ کا بھی اس معاملہ پر فیصلہ موجود ہے،اس نکتے پر حکومتی موقف بھی جاننا چاہیں گے۔

منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ کے سامنے اٹارنی جنرل نے دلائل دیے آئرلینڈ کی پارلیمنٹ کے دو ہاؤس ہیں، آئرلینڈ میں لوئر ہاوس کے انتخابات پاپولر ووٹ سے ہوتے ہیں،آئرلینڈ میں پاپولر ووٹ خفیہ ہوتے ہیں۔

میاں رضا ربانی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوۓ موقف اپنایا کہ رولز صدارتی انتخابات کے لئے کمشنر کو ہدایات جاری کرنے کا اختیار دیتے ہیں،شیڈول 2 کے باوجود صدارتی انتخابات کے لئے رولز بنائیں گے،یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سینٹ کے انتخابات بھی آئین کے تحت ہوتے ہیں،الیکشن ایکٹ 2017 بھی آئین کی کمانڈ پر بنایا گیا ہے،الیکشن ایکٹ نے بھی آئین کہ کمانڈ سے جنم لیا ہے،امریکی کونسل آف اسٹیٹ میں ہر ریاست کی نشستوں کی تعداد ایک جیسی نہیں ہے،امریکی کونسل آف اسٹیٹ میں آبادی کے لحاظ سے نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ آرٹیکل 59 میں کہیں نہیں لکھا سینٹ کا الیکشن قانون کے مطابق ہوگا،سینٹ کھبی تحلیل نہیں ہوتی ارکان ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں،متناسب نمائندگی کا مطلب یہ نہیں کہ اسمبلی کی اکثریت سینٹ میں بھی ملے،متناسب نمائندگی نظام کے تحت سیٹیوں کی تعداد میں کمی بیشی ہو سکتی ہے،جہاں ووٹوں کی خریدو فروخت ہو گی قانون اپنا راستہ بنائے گا، شواہد کے بغیر سیٹوں کی تعداد میں فرق کووووٹ فروخت کرنا نہیں کہہ سکتے،بیلٹ پیپرز کی سیکریسی متاثر نہ ہو تو الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے، رشوت لینا یا لینے پر آمادگی ظاہر کرنا ووٹ دینے کے پہلے کے مراحل ہیں،ووٹ کے لیے پیسے لینے والا ووٹنگ سے پہلے کرپشن کر چکا ہوتا ہے،کرپشن ووٹنگ سے پہلے ہوتی ہے تو اس کے لیے ووٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ رولز صدارتی الیکشن کا اختیار دیتے ہیں،الیکشن ایکٹ کے لیے بنے رولز کی حیثیت آئینی نہیں ہے،تمام قوانین کا جنم آئین سے ہوتا ہے،یہ حقیقت ہے کہ صدارتی الیکشن کے لئے کوئی قانون نہیں بنایا گیا،چیئرمین سینٹ سپیکر اسمبلی کاالیکشن ان کے عہدے کا انتخاب ہوتا ہے،سینٹ الیکشن کا مکمل طریقہ کار آئین میں نہیں قانون میں ہے،ایسا طریقہ بھی بتا دیں ووٹ دیکھا بھی جائے سکریریسی متاثر نہ ہو،اگر معاہدے ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھر کیا ہوگا،ووٹ ڈالنا ثابت ہوگا تو ہی معلوم ہوگا رقم الیکشن کے لئے دی گئی۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے ایک موقع پر عدالت کو بتایا کہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے دلائل دوں گا۔

پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے دلائل میں مزید کہا متناسب نمائندگی میں سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کی گنجائش رکھی گئی ہے. چیف جسٹس نے کہا ہم اس سے انکاری نہیں ہیں،اگر متناسب نمائندگی میں سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کا میکانزم شامل ہے تو پھر اکثریتی جماعت کا کیا ہوگا؟ایسے میں تو پھر ایوان بالا میں اکثریت والی جماعت اقلیت میں بدل سکتی ہے۔

رضا ربانی نے جواب دیا یہ ضروری بھی نہیں اور ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا الیکشن کمیشن نے اسی معاملے کو تو دیکھنا ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن ضرور معاملہ دیکھ سکتا ہے لیکن خفیہ ووٹ کا اختیار ختم نہیں کر سکتا،الیکشن کمیشن ووٹ ڈالنے سے پہلے کے مراحل کو دیکھ سکتا ہے اس کے بعد کے نہیں،ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے اگر پیسے لیے گئے اور رضا مندی کا وعدہ کیا گیا تو پھر کاروائی ہو سکتی ہے،بیلٹ پیپر بذات خود ایک بہت بڑی شہادت ہے،ٹربیونل بیلٹ پیپر کا جائزہ لے سکتا ہے لیکن سینیٹ الیکشن یکسر مختلف ہے،اگر میں نے معاہدہ کر بھی لیا تو بھی میں پکڑا جا سکتا ہوں. جسٹس اعجاز الاحسن نے کہااگر ووٹ کی خریدوفروخت کی وڈیو سامنے آئی ہیں تو اس پر کیا ایکشن ہوا ہے؟۔

رضا ربانی نے کہا کہ آپ جانتے ہیں وہ وڈیو کن کی ہیں میں سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہوں اس پر بات نہیں کرونگا،ووٹنگ کے لیے پیسہ لینا، کوئی معاہدہ کرنا کرپٹ پریکٹس ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا یہ معاملہ تو پھر ووٹ سے جڑا ہوا ہے. رضا ربانی نے کہا کہ ووٹ سے نہیں بلکہ ووٹنگ سے جڑا ہے،الزام کنندہ کو الزام ثابت کرنے کے لیے شہادت دینا ہوگی،جب تک بیلٹ پیپر نہیں دیکھا جاتا تب تک کوئی ٹھوس شہادت نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ تو اوپن اینڈ شٹ کیس ہوگا. رضا ربانی نے کہا کہ فرض کریں اگر ووٹ نہ دینے کا معاہدہ ہوا تو پھر بیلٹ پیپر کی تو کوئی اہمیت نا رہی،میں یہی کہہ رہا ہوں کہ بیلٹ پیپر کرپٹ پریکٹس کا فیصلہ نہیں کرسکتا،بنیادی سوال سینیٹ الیکشن کی سیکریسی کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا پی پی میں ایک پی بڑھا کر آج یہ آ گئے ہیں کل تو پی ایس ایف والے بھی آ جائیں گے،پچھلے ریفرنس میں بھی کسی وکلا تنظیم کو نہیں سنا گیا اس سیاسی نوعیت کے کیس میں بار کونسل کیا کردار ہے،ان کو اگر کیس کرنا ہے تو اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملے کے لیے درخواست لےکر آئیں،اس کیس میں سیاسی جماعتیں تو سٹیک ہولڈرز ہیں وکلا تنظیموں کا کیا لینا دینا؟ اسلام آباد بار کے وکیل نے جواب دیا یہ ایک عوامی مسئلہ ہے اور بار کونسلز کو عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی نہیں روک سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کی کوشش ہے کہ جلد اس کو نمٹایا لیکن ہمیں آئین کی تشریح کرنی ہے. اٹارنی جنرل نے کہا اگر کل تک اس کیس کا فیصلہ نا ہوا تو یہ علمی مباحثہ بن کر رہ جائے گا.عدالت نے میاں رضا ربانی کو آئندہ سماعت پر اپنے دلائل مکمل کرنے جبکہ فاروق ایچ نائیک کو اپنے تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوۓ سماعت ملتوی کر دی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے