متفرق خبریں

جسٹس قاضی فائز کیس: بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیجی رقم سے جائیداد خریدنے کی ممانعت نہیں

اپریل 19, 2021 3 min
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

جسٹس قاضی فائز کیس: بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیجی رقم سے جائیداد خریدنے کی ممانعت نہیں

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران دس رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سرینہ عیسیٰ سے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ بیرون ملک جائیداد کی خریداری کے لیے رقم ہنڈی سے نہیں بینکنگ چینل سے بھیجی گئی۔ تعلیم کے حصول کے لیے باہر بھیجی گئی رقم سے جائیداد خریدنے کی ممانعت نہیں۔

رپورٹ: جہانزیب عباسی

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا آپ نے ایف بی آر کی طرف سے عائد کردہ جرمانہ ادا کیا؟ سرینہ عیسیٰ نے جواب دیا کہ ہم نے جرمانہ ادا نہیں کیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ کیا آپ نے ایف بی آر کے آرڈر کو چیلنج کیا، جس پر جواب دیا گیا کہ جی ہم نے ایف بی آر آرڈر کو متعلقہ فورم پر چیلنج کر رکھا ہے۔

سرینہ عیسیٰ نے بتایا کہ جب غیر ملکی جائیدادیں خریدی گئیں اس وقت میرے بچے بالغ تھے۔ وزیراعظم عمران خان کیوں اپنی تین بیویوں اور تین بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کر رہا۔

سرینہ عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان آرٹیکل 62 پر پورا نہیں اترتے، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کیس فیصلے میں لکھا انکم ٹیکس شق 116مبہم ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون کی شق 116 کو مبہم قرار دینا آپ کے حق میں ہے۔

سرینہ عیسیٰ نے کہا کہ وہ 1982سے ٹیکس ادا کر رہی ہیں۔کمرہ عدالت میں موجود ایسے کتنے افراد ہیں جو 1982سے ٹیکس دے رہے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سرینہ عیسیٰ سے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ میں کہا گیا آپ کے بیان میں تضاد ہے، آپ کا موقف ہے کہ ایک بیرون ملک جائیداد آپ کی ہے، دیگر دو بیرون ملک جائیدادیں بچوں کی ہیں، جبکہ ایف بی آر کہہ رہا ہے دیگر دو جائیدادوں میں آپ پچاس فیصد کی شیئر ہولڈر ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس سوال کا جواب ایف بی آر میں نہیں دیا گیا۔ سرینہ عیسیٰ نے کہا کہ ایک بیرون ملک جائیداد میری ہے، باقی دو جائیدادوں میں میں شیئر ہولڈر ہوں، میں سو فیصد جواب دے چکی ہوں، میرا موقف کبھی نہیں بدلا، یہ بہت پرانا معاملہ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال سورس آف فنڈز کا ہے۔

سرینہ عیسیٰ کے دلائل:

مرکزی کیس فیصلے میں 194مرتبہ میرا اور میرے بچوں کا تذکرہ کیا گیا، ہم تو مرکزی مقدمے میں فریق ہی نہیں تھے، عوامی سطح پر ہمارے اہل خانہ کی تضحیک کی گئی۔ میں نے مرکزی کیس کی ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ کیلئے رجسٹرار سپریم کورٹ سے رجوع کیا، مجھے رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے کیس کا ٹرانسکرپٹ اور ریکارڈ نہیں فراہم کی گئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مرکزی مقدمے میں آپ کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ موجود ہے، آپ اگر مرکزی کیس کے ریکارڈ سے دلائل دیں تو ہمیں سمجھنے میں آسانی ہوگی، آپ اس کیس میں تھرڈ پارٹی ہیں، براہ راست آپ کا اس کیس سے تعلق نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جج کا کنڈکٹ زیر بحث رہا، درخواست گزار تو سپریم جوڈیشل کونسل میں جانا ہی نہیں چاہتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیے بغیر ریمارکس دیے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی نشست سے اٹھ کر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میرے سپریم جوڈیشل کونسل میں نہ جانے سے متعلق بات حقائق کے منافی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس دیا لیکن مجھے مکمل دفاع کا حق نہیں دیا گیا، میں نے سپریم جوڈیشل کونسل میں مجموعی طور پر پانچ جوابات جمع کرائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں جوڈیشل کونسل کی کارروائی ملتوی کرنے کیلئے التواء کی ایک درخواست بھی نہیں دی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک موقع پر جسٹس منیب اختر سے کہا کہ مہربانی فرمائیں، میری اہلیہ وکیل نہیں ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا سرینہ عیسیٰ سے مکالمہ:

ہم تسلیم کرتے ہیں آپ عدالتی کارروائی کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوئیں، یہ کیس غیر قانونیت کا نہیں بلکہ زریعہ آمدن کا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے