صحافت کے گلے میں پھندہ
Reading Time: 4 minutesصحافت کا اصل فریضہ ”آدمی نے کتے کو کاٹ لیا“ والی انہونی تلاش کرنا نہیں بلکہ حکمران اشرافیہ کے ان فیصلوں کو منظرِ عام پر لانا ہے جسے وہ خلق خدا سے چھپانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ کوئی خبر نگار ایسا کوئی فیصلہ بہت خجل خوار ہونے کے بعد ڈھونڈلے تو اس کے اخبار والے اسے چھاپنے سے پہلے سو طرح کے سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان سوالات کے معقول جوابات فراہم کئے بغیر کسی خبر کا خواہ وہ کتنی ہی مصدقہ کیوں نہ ہو، چھاپنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ خبر چھاپ دینے کے بعد اس پر ڈٹے رہنا البتہ اخبارکی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری بنیادی طورپر اس اخبار کا مدیر اپنے سرلیتا ہے۔ وہ اخبار میں چھپی خبر پر ڈٹا رہے تو حکومت اور اشرافیہ باہم مل کر اس اخبار کو مالی ضعف پہنچانے کے طریقے ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں۔ اخباروں کے مالکان کے لئے ”ضدی اور نامعقول“ مدیر اور خبرنگاروں سے جان چھڑانا ٹھوس کاروباری وجوہات کی بناء پر ضروری بنادیا جاتا ہے۔
اصولی طور پر میں کسی اخبار کے مالک ہی کو اس کا مدیر ہونا بھی ایک غلط عمل شمار کرتا ہوں۔ اپنے مخصوص حالات پر لیکن جب بھی غور کیا تو سمجھ آگئی کہ مولانا محمد علی جوہر،ظفر علی خاں سے لے کر مجید نظامی صاحب تک ہماری صحافت کے کئی درخشاں ستارے بیک وقت مالک ومدیر بننے پر کیوں مجبور ہوئے۔ بنیادی مقصد اس فیصلے کا درحقیقت اشرافیہ کو یہ پیغام دینا تھا کہ کسی خبر کو چھاپنے کی ممکنہ حد تک سخت ترین سزا بھگتنے کو وہ ذاتی طورپر ہمہ وقت تیار ہیں۔
ہماری صحافت کے ابتدائی دنوں میں ایک دور ایسا بھی تھا جب اشتہاروں کے بغیر صرف سرکولیشن کی وجہ سے اخبارات اپنا وجود برقرار رکھ سکتے تھے۔ ابتدائی ایام میں اخبارات کو ایسے کئی قاری بھی مل جاتے جو کسی اخبار یا جریدے کی قیمت سالانہ بنیادوں پر یکمشت پیشگی ادا کردیتے۔ اخبارات کو زندہ رکھنے کے لئے یہ رقوم ایک بہت بڑا سہارا تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ مگر اخباری کاغذ اور اس پر طباعت کے اخراجات اتنے بڑھ گئے کہ سرکولیشن میں اضافہ اخبار کے مالی بوجھ کا باعث ہوناشروع ہوگیا۔اخبارات کو قارئین کے گھروں تک پہنچانے والے ہاکروں کے کمیشن کی ادائیگی کے بعد اخبار کے مالک کو فی شمارہ جو رقم ملتی وہ اسے شائع کرنے کی لاگت سے کہیں کم ہوتی۔اخباری صنعت کے ساتھ ”خسارے کے بجٹ“ والا معاملہ شروع ہوگیا۔
حکومتیں اپنے اخراجات اور محاصل کے ذریعے حاصل ہوئی رقوم کے درمیانی فرق کو عالمی اداروں یاغیر ممالک سے قرض یا امداد لے کر برابر کرتی ہیں۔اخبارات فی کاپی اشاعت کے اخراجات اور اس کے فروخت کے بعد حاصل ہوئی رقوم کے درمیان فرق کو اشتہارات کی بدولت برابر کرنے کے بعد منافع کمانے کی صورت نکالتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد سے سرکولیشن بھی بتدریج ایک لایعنی اور قطعاََ غیر متعلق شے بن رہی ہے۔آپ میں سے اکثر لوگ میرا یہ کالم اپنے کمپیوٹر اور سمارٹ فون کے ذریعے پڑھتے ہوںگے۔ میرے کالم کا مگر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک انٹرنیٹ کے ذریعے پہنچنا میرے اخبار کے مالک کو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ اسے بدستور پرنٹ ایڈیشن میں اشتہارات کی ضرورت ہے اور ابھی تک ہماری سرکار ہی اشتہارات دینے والا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ زندہ رہنے کے لئے اخباری مالکان کے لئے لہذا سرکار کو اپنے خلاف مشتعل کئے رکھنا ٹھوس کاروباری وجوہات کی بناءپر ممکن ہی نہیں رہا۔یہ خودکشی کا سودا ہے۔ ایک جنونی فعل۔ جس کا نقصان صرف کسی اخبار کے مالک ہی کو برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ اس ادارے سے وابستہ سینکڑوں کارکنوں کی زندگی اور موت کا سوال بن جاتا ہے۔
ڈان اخبار میں 6 اکتوبر 2016ءکی صبح چھپی خبر کے بعد سے جو طوفان بے بنیاد دشنام طرازیوں کے ذریعے اٹھاگیا،اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری مختلف النوع اشرافیہ نے باہم مل کر انتہائی مکاری اور ہوشیاری سے بالآخر اخباری مالکان کی تنظیم APNS پر دباﺅ بڑھاتے ہوئے آزاد اور تحقیقی صحافت کو لگام ڈالنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ میری بدقسمتی کہ لگام ڈالنے والا یہ ہتھکنڈہ ہمارے صحافتی کارکنوں کی بے پناہ اکثریت کو ہرگز سمجھ میں نہیں آیا ہے۔ نواز مخالف سیاستدان موجودہ حکومت کی اندھی نفرت میں مبتلا ہوکر اسے دیکھنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ انہیں تو ”شریک کی دیوار“ گری ہوئی دیکھنا ہے اگرچہ جب بھی یہ دیوار گرتی ہے تو اس کے ملبے تلے صرف حکمران جماعت ہی نہیں اپوزیشن کے تمام سرکردہ رہ نما بھی کراہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ذولفقار علی بھٹو کی دیوار کوجنرل ضیاءکے ٹینکوں کے ذریعے مسمار کروانے کے بعد 1981ءمیں ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت ملبے تلے یکساں طورپر کراہتی نظر آئی تھی۔ایم آر ڈی بناکرانہوں نے اس ملبے سے باہر آنے کی کوشش کی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔
1999ءمیں جنرل مشرف نے نواز شریف کی دوسری حکومت کی دیوار گرائی تو عافیت بالآخر صرف ”ق“ کہلاتی پاکستان مسلم لیگ کی صفوں میں گھس کر ہی مل سکتی تھی۔
اسی باعث تو 90ءکی دہائی میں ایک دوسرے کی زندگی اجیرن بنانے والے نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ”میثاقِ جمہوریت“ اپنانے پر مجبور ہوئے تھے۔ دونوں نے اس معاہدے پر دستخط جلاوطنی میں کئے تھے۔ محترمہ اس کی بدولت بالآخر وطن لوٹیں تو دہشت گردوں کا نشانہ بن گئیں۔ ”فاختہ“ نے کئی دُکھ جھیل کر جو انڈے دئیے تھے اسے ہماری سیاست کے جانے پہچانے موقعہ پرستوں نے جی بھر کے کھایا۔ کئی برس کی خواری کے بعدنواز شریف تیسری بار وزیر اعظم کے دفتر پہنچے تو ان میں سے کئی موقع پرست کوّے ان کے دائیں بائیں براجمان ہو گئے۔ ان دنوں باقی رہ جانے والے کوﺅں کی اُڑان بنی گالہ کی طرف ہے۔ مصطفےٰ کھر کو وہاں بسیرے کے لئے ایک شاخ مل چکی ہے۔ اب انتظار فردوس عاشق اعوان کا ہورہا ہے۔
کل وقتی سیاستدانوں سے محرومی لیکن میرا اصل غم نہیں۔ میرا پہلا اور آخری عشق صحافت ہے۔ ان دنوں اخباری مالکان کے گلے میں پھندہ ڈال کر اس کا گلاگھونٹنے کی تیاری ہے۔ پریشان کن حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ ہمارے گلے میں خاموشی سے ڈالا یہ پھندا ہم میں سے اکثر کو ابھی نظر بھی نہیں آرہا۔ ڈور کو آہستہ آہستہ کھینچا جا رہا ہے۔ ہم صحافیوں تک بھی اس کی خبر اس وقت پہنچے گی جب ہم سانس لینے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔