یوکرین پر حملہ اور رشین ادب/ چھٹی اور آخری قسط
Reading Time: 6 minutesچنانچہ یہی وجہ ہے کہ ولادی میر پیوٹن اپنے ملک میں "لبرل جمہوریت” کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وہ کہتا ہے، باہر کا نظام ہم ایک بار بھگت چکے اب باہر سے ہی دوسرا نظام لینے کی غلطی نہیں کریں گے۔ یہ جو آپ پیوٹن کو کبھی ریچھ سے کشتی لڑتا ، کبھی جوڈو کھیلتا، کبھی سمندر کی تہہ میں اترتا، تو کبھی دسمبر کی یخ بستہ رات میں برفانی پانی میں غوطہ لگاتے دیکھتے ہیں اس سے وہ یہی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ میں سپرفلس مین نہیں ہوں۔ تاریخ مجھے میرے جھاڑے فلسفوں سے نہیں بلکہ اس عمل سے یاد رکھے گی جو میں نے روس کو امریکہ کی فکری غلامی میں دینے سے انکار کی صورت اختیار کیا ہے۔ مغربی میڈیا میں اس حوالے سے بھی اس کے خلاف باقاعدہ پروپیگنڈہ موجود ہے۔ وہ اس بات کا بہت ڈھول پیٹتے ہیں کہ پیوٹن اپنی مذکورہ حرکتوں، واک، اور بیٹھنے کے انداز سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ "الفا نر” ہے۔ الفا نر کا تصور ان جانوروں کے لیڈر کے لئے استعمال ہوتا ہے جو خاندان کی صورت رہتے ہیں۔ ان کا لیڈر وہی ہوتا ہے جو جسمانی لحاظ سے زیادہ قوی اور زیادہ لڑاکا ہو۔ خاندان کا تحفظ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مغربی میڈیا کو اندازہ ہی نہیں کہ اپنی جسمانی و اعصابی قوت کے مظاہروں کے ذریعے پیوٹن روسی تہذیب وادب سے خود کو جڑا ثابت کرتا ہے اور یہ روسی تہذیب کا ہی تقاضا ہے کہ روسیوں کا لیڈر الفا نر ہو۔ چنانچہ روسی اسے ویسے ہی لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں جو خالص روسی ہے۔ سپرفلس مین نہیں ہے۔ مغرب سے اس کی مزاحمت اس کے لئے امریکہ اور مغرب کی طرح تیل یا دیگر وسائل پر قبضے کی جنگ نہیں، بلکہ خالص نظریے کی جنگ ہے۔ اسے ہم بہتر انداز سے2013ء کے ایک ایسے واقعے سے سمجھ سکتے ہیں جس نے عالمی سطح پر ارتعاش پیدا کیا تھا۔
روس میں 2014ء کے دوران اولمپک مقابلے منعقد ہونے کا وقت قریب آیا تو ولادی میر پیوٹن کو اندازہ تھا کہ ان مقابلوں کے لئے نہ صرف دنیا بھر سے ایتھلیٹس آئیں گے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں سیاحوں کی آمد بھی ہوگی۔ ظاہر ہے ان ایتھلیٹس اور سیاحوں میں اہل مغرب بھی شامل تھے۔ چنانچہ ان مقابلوں سے کچھ ہی قبل ولادی میر پیوٹن نے کچھ نئے قوانین نافذ کر دیئے۔ ان قوانین کی رو سے ہم جنس پرستی اور عوامی مقامات پر جنسی سرگرمیاں ممنوع قرار دیدی گئیں۔ جبکہ مغرب کا تو یہ حال ہے کہ پبلک پارک، بس سٹاپ، ریل اور ٹرین غرضیکہ کسی بھی جگہ کسی کا جی چاہا تو جنسی تسکین حاصل کرلی گئی۔ اور پھر اسی ضمن میں انہوں نے ہم جنس پرستی کو بھی قانونی کر رکھا ہے۔ کیونکہ ان کا فلسفہ حیات ہی تعیش پرستی پر مبنی ہے۔ یہ قوانین نافذ ہوئے تو مغرب سے اس پر سخت ردعمل آیا کہ یہ تو ہم جنس پرستوں کی توہین کردی گئی ہے اور ان کے حقوق غصب کر دیئے گئے ہیں۔ تب رو س کی شہرہ آفاق ایتھلیٹ یلینااسمبھیوا میڈیا پر آئیں۔ یہ پول والٹ جیسے پر مشقت جسمانی کھیل میں اس کھیل کی پوری تاریخ کی سب سے بڑی کھلاڑی اور لیجنڈ ہیں۔ یلینا نے تاریخی سٹیٹمنٹ دیتے ہوئے کہا
"یہ (بے لگام جنسی آزادی کا کلچر) ہمارے ملک اور لوگوں کی توہین ہوگا۔ شاید ہم آپ سے مختلف ہیں۔ ہم روسی ایسے ہی ہیں۔ ہم نارمل لوگ ہیں۔ ہمارے مرد عورتوں کے ساتھ اور عورتیں مردوں کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں۔ ہماری پوری تاریخ ہی اسی طرح کی ہے۔ (یعنی ہم کبھی ہم جنس پرست نہیں رہے) اور ہمیں کبھی بھی اس حوالے سے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہمارے لوگ اس طرح کی (ہم جنس پرست) زندگی نہیں گزارتے۔ اور نہ ہی وہ عوامی مقامات پر الٹی سیدھی حرکتیں (جنسی تسکین والی حرکتوں کی جانب اشارہ) کرتے ہیں۔ ہم آپ کے قوانین کا احترام کرتے ہیں، آپ بھی ہمارے قوانین کا احترام کیجئے”
مغربی میڈیا کی تو ساخت ہی حقائق کو مسخ کرنے کے لئے ہے۔ چنانچہ یلینا کے خلاف بھی محاذ کھول دیا گیا اور ان کے بیان کو اپنی مرضی کے معنی پہنائے جانے لگے۔ اس پروپیگنڈے میں سب سے زیادہ زور ایک ہی جملے پر تھا "آپ پوری دنیا سے ہٹ کر نہیں چل سکتے” اس پر روسی دانشوروں نے جوابی وار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کرکے ان کی دہجیاں اڑا دیں کہ پوری دنیا سے کیا مراد ہے ؟ دنیا میں 192 ممالک ہیں۔ جس کلچر کا آپ دفاع کر رہےہیں یہ صرف 37 ممالک کا کلچر ہے۔ آپ خود کو پوری دنیا کیسے قرار دے سکتے ہیں ؟ ہم آپ کو پوری دنیا نہیں مانتے۔ آپ بس مخصوص ذہنیت کے چند ممالک ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو آپ سوچتے ہیں وہ پوری دنیا سوچتی ہے۔ اور جو آپ کرتے ہیں وہ پوری دنیا کا طرز عمل ہونا چاہئے۔یوں اس جوابی وار نے مغربی میڈیا کو بیک فٹ پر دھکیل دیا۔
اب بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے میڈیا پر لنڈا بازار کا قبضہ ہے۔ جنہوں نے اسے مغربی لائن فالو کرنے والا میڈیا بنا کر رکھدیا ہے۔ چنانچہ یہ اس طرح کی خبروں کو یا تو آنے نہیں دیتے اور اگر میڈیا پر لائیں بھی تو بہت ہی محدود پیمانے پر اس انداز سے لاتے ہیں کہ عوام میں اس کے اثرات پیدا نہ ہوں۔ ورنہ یہ ایک واقعہ ہی یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ "شرم و حیا” صرف مسلم تہذیب کا ہی حصہ نہیں۔ یہ غیر مسلم اقوام میں بھی موجود ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ ہر قوم نے اس کی حدود اپنے مزاج کے مطابق مختلف رکھی ہیں۔ کیا چینی تہذیب میں بھی یہ موجود نہیں ؟ کیا خالص ہندو تہذیب میں بھی یہ شامل نہیں ؟ جس کا مطلب یہ ہے کہ جنسی آزادی کے حوالے سے ہم مسلمان اپنا وزن بوقت ضرورت نہ صرف ان کے پلڑے میں ڈال سکتے ہیں بلکہ ان کا وزن بھی اپنے پلڑے میں طلب کرسکتے ہیں۔
سو قاری ذی وقار ! یہ ہے وہ سارا تاریخی پس منظر جس کی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے روایتی مغربی اتحادیوں کی مدد سے روس کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ کیونکہ یہ ممالک اپنی فکر کے خلاف کوئی متبادل بیانیہ "برداشت” کر ہی نہیں سکتے۔ یہ صرف لنڈا بازار کا پھیلایا ہوا ڈھکوسلہ ہے کہ "مہذب قومیں” یعنی مغربی قومیں برداشت کا کلچر رکھتی ہیں۔ ان میں برداشت ہوتی تو یہ روس کے گرد نیٹو کا حصار قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ؟ کیا روسیوں کو اس بات کا کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے جئیں ؟ لندا بازار کا کوئی ڈیڑھ بالشتیا ہمیں سمجھا سکتا کہ جب کسی قوم پر اپنا طرز حیات نیٹو حصار کے ذریعے زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسا کرنے والے "آزادی” کے کیسے علمبردار ہوگئے ؟ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ یوکرین نیٹو میں اس لئے شامل نہیں ہو رہا کہ اسے کسی سے خطرہ ہے۔ بلکہ اس لئے شامل ہو رہا ہے کہ عوامی بغاوت کے ذریعے مسلط کردہ اس کا حکمران امریکہ کا آلہ کار بن کر اپنے ملک کو روسی سرحد پر نیٹو کے اڈے میں تبدیل کر رہا ہے۔ اس اڈے کو پیوٹن کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔ وہ اسے جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادےگا مگر نیٹو کے ہاتھ نہیں لگنے دے گا۔ نپولین کے خلاف جنگ میں بھی روسیوں نے اپنے ہی ماسکو کو اسی لئے آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا کہ نپولین کا خواب پورا نہ ہو، اور وہی ہوا۔ راکھ کے اس ڈھیر سے ہی نپولین کو واپسی کی راہ لینی پڑی تھی۔
اب اگر ہم ٹالسٹائی کی تھیوری آف ہسٹری کی نظر سے دیکھیں تو اس میں ولادی میر پیوٹن کا یوکرین پر حملہ اس لئے نہیں کہ وہ لامحدود اختیار کا مالک ہونے کی حیثیت سے اس تاریخ کا خالق ہے بلکہ اس لئے ہے کہ تاریخ کے تسلسل میں ماضی کے واقعات نے وہ ماحول بنا دیا ہے جس میں پیوٹن کے پاس یوکرین پر حملے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن اگر ہم مغربی تھیوری کو قبول کرلیں کہ تنہاء پیوٹن نامی ولن اور اس کا لامحدود اختیار ہی اس کے اس حملے کی وجہ ہے۔ یہ پیوٹن ہی ہے جو اس سب کا ذمہ دار ہے۔ اس کی فری ول ہی اس حملے کا باعث ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ اگر پیوٹن امریکہ کا صدر ہوتا تو وہ روس پر حملہ کرتا۔ اٹلی کا وزیر اعظم ہوتا تو ویٹی کن سٹی پر حملہ کرتا، حتی کہ یوکرین کا صدر ہوتا تو روس پر حملہ کرتا۔ کیا بات مانی جاسکتی ہے ؟
اس کے حملے کے ردعمل میں مغرب اس پر معاشی پابندیاں لگا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی پروڈکٹ گیس ہے جو یورپ خریدتا ہے۔ ہمارا ایک لندا بازاری اگلے روز ٹی وی پر کہہ رہا تھا کہ جب یورپ اس کی گیس ہی نہیں خریدے گا تو وہ کیا کرے گا ؟ سو لندا بازار کو خبر ہوکہ ولادی میر پیوٹن دوستوئیسکی کا بہت بڑا مداح ہے۔ اس کی فکر کا پاور ہاؤس دوستوئیسکی ہی ہے۔ اور تین وجوہات کے تحت ہے۔ پہلی یہ کہ دوستوئیسکی غیرملکی نظام کو مسترد کرتا ہے۔ دوسری یہ کہ سوا سو سال قبل اس نے غیر ملکی نظام کے روس میں ہونے کی جو پیشینگوئی کی تھی وہ پوری ہوچکی۔ تیسری یہ کہ دوستوئیسکی اس بات کا قائل ہے کہ "فرد” کو اس کے آلات کے ساتھ تنہاء نہیں چھوڑا جاسکتا ورنہ وہ نقصان پہنچائے گا۔ یعنی وہ فرد پر ریاستی کنٹرول کا قائل ہے، فرد کی بے لگام آزادی نہیں مانتا۔ ولادی میر پیوٹن کے یہی ممدوح اپنی غیر افسانوی تحاریر کے مجموعے "اے رائٹرز ڈائری” میں سوا سو سال قبل ہی ایک بات اور بھی لکھ گئے ہیں۔ اور پچھلے دس سالوں کے دوران پیوٹن کی چینی صدر سے 22 ملاقاتیں کم از کم ہم کو تو یہی اشارہ دے رہی ہیں کہ پیوٹن دوستوئیسکی کے اس کہے پر بھی عمل کا ارادہ رکھتا ہے۔ آیئے اس تحریر کا اختتام فیودور دوستوئیسکی کے اسی ارشاد پر کرتے ہیں
"روس صرف یورپ میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایشیا میں بھی ہے۔ روسی صرف یورپین نہیں بلکہ ایشیائی بھی ہیں۔ مزید یہ کہ ایشیا ہمارے لئے یورپ سے زیادہ بڑے امکانات رکھتا ہے۔ ہمارے مستقبل کی منازل میں ایشیا شایدہماری مرکزی دکان ہو”
(ختم شد)