عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی یا ناکامی بے معنی کیوں؟
Reading Time: 2 minutesمیرے ایک دوست نے مجھ سے کچھ سوالات پوچھے جن کے جواب آپ کی نذر ہیں۔
کیا اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے؟
میرا خیال یہ ہے کہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوسکتی ہے؟
میری رائے میں ایسا ممکن نہیں ، ان کے معاشی مفادات اس سسٹم میں اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے، اپنے معاشی مفادات کو ان ٹیکٹ رکھنے کے لئے انہوں نے 1971 میں ملک توڑنا تو پسند کیا لیکن اقتدار ایسی پارٹی کو دینے سے انکار کر دیا جو ان کے معاشی مفاد کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔
سوال: اگر عمران خان عدم اعتماد کی تحریک سے بچ نکلے تو کیا ہوگا؟
ووٹ آف کانفیڈینس کی کامیابی یا ناکامی بے معنی ہے کیونکہ عملی طور پر عمران حکومت ختم ہوچکی ہے، ان کے اپنے ساتھی ان کے ساتھ نہیں اور اتحادیوں کو جو چارہ وہ ڈالیں گے اس سے زیادہ چارہ ڈالنے کا اپوزیشن انتظام کرتی رہے گی، کسی چیز کو اسمبلی میں نہیں لایا جاسکے گا، بیوروکریسی ان کے احکامات کو ڈیلے کرے گی، سیاسی تلخی عروج پر رہے گی اور ہر صورت جلدی الیکشن کی طرف جانا ہوگا۔
عمران خان نے پیسہ چلایا ہے؟
ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاست انفلوئنس بڑھانے کے لیے کی جاتی ہے، پیسہ خود آجاتا ہے، ایم کیو ایم اور ق لیگ کو مزید وزارتیں آفر کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اپ دیگ میں سے جو نکالنا چاہتے ہیں نکال لیں میں آپ کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں۔
آپ جو بات اسٹیبلیش کرنا چاہتے ہیں کہ عمران خان کو کسی قسم کی اخلاقی برتری حاصل ہے تو میرا جواب ہے کہ بالکل نہیں۔
اگر اسٹیبلشمنٹ نے آخری لمحات میں عمران خان کی حمایت کا اعلان کر دیا تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟
میری رائے میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا فطری اتحادی ہے، اسٹیبلشمنٹ کو ایسی سیاسی جماعتیں سوٹ نہیں کرتیں جو عوامی حمایت پر تکیہ کرتی ہوں اور ان سے بحث کرنے کی اہل ہوں، اسٹیبلشمنٹ کی واحد چوائس کنزرویٹو دماغ ہوتا ہے جو عمران خان یا ملا کا ہی ہوسکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اگر تادیر اپنی بادشاہی قائم رکھنا چاہتی ہے تو اسے ملا اور عمران کا اتحاد بنانا چاہیے، وہ کوشش کرے کہ عمران خان مولوی خادم کے بیٹے، جماعت اسلامی حتیٰ کہ فضل الرحمن کے ساتھ مل کر اگلے الیکشن میں اترے۔