کالم

ایک رقاصہ اور تھانیدار کی کہانی!

مارچ 19, 2022 4 min

ایک رقاصہ اور تھانیدار کی کہانی!

Reading Time: 4 minutes

آج کل ایک رقاصہ خبروں میں ہے، اور برے وقت سے گزر رہی ہے، چلیں اس کی یہاں تک پہنچنے کی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.

اس رقاصہ کے حسن کے چرچے بہت دور دور تک پھیلے ہوے تھے، مرد، عورت،اندرلے، بارلے، غریب، عام ڈفر سے لے کر چھوٹی موٹی چالاکیاں کرنے والے سب اس کی جوانی کے حسن کے دیوانے تھے، اب جب کہ اس کی عمر ڈھل چکی تھی لیکن انداز وہی چونچلے تھے.

ایک بندہ جو کہ نوجوانی میں بری طرح اس رقاصہ کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا، لیکن اس رقاصہ کو پانے کی خواہش معاشرتی اقدار اور پلے کچھ نا ہونے کی وجہ سے جوانی میں تو پوری نا ہو سکی لیکن شب و روز کی گھسای کے بعد جب یہ بندہ علاقے کا سب سے بڑا تھانیدار بن گیا تو سب سے پہلے اس کے دل میں اس رقاصہ کی قربت کو پانے کی خواہش نے جنم لیا، اب جب کہ رقاصہ بھی اپنی جوانی گزار چکی تھی لیکن اس کے لچھن اب بھی وہی تھے اور اس کو بھی اب کسی ایسی موٹی اسامی کی تلاش تھی جو اس کے ناز نخرے اٹھا سکے اور اس کے وہ سارے خواب بھی پورے کرا سکے، جو اب تک پورے نہی ہو سکے تھے، تھائندار نے اس رقاصہ کے سامنے اپنا دل کھول کے رکھ دیا، رقاصہ کو تو اسی دن کی آرزو تھی کہ کوی ایسا طاقتور ملے جس پر سوار ہو کر وہ ہواؤں میں آڑتی پھرے، یہی تو اس نے ساری جوانی کیا تھا، رقاصہ نے یہ جانتے ہی کہ تھانیدار اس کا دیوانہ ہے اسی وقت تھائندار کا دل اپنی مٹھی میں کر لیا، بس پھر کیا، اس رقاصہ نے اپنی ہر خواہش اس تھانیدار کے زریعے پوری کروانی شروع کر دی اور تھانیدار نے بھی اپنی پوری فورس اپنی محبوب رقاصہ کی خواہشات پوری کرنے پر لگا دی، کوٹھے پر بیٹھنے والی رقاصہ تھانیدار کی طاقت کو استعمال کرتے ہوے بہت جلد ہر چیز پر قابض ہو گئی، تھائندار کے سارے اختیارات اب رقاصہ کے ہو چکے تھے.

تھانیدار نے اپنا ایک خاص نائب اور اس کی فورس اس رقاصہ کی ہر جائز، ناجائز خواہش پوری کرنے کے لیے لگایا ہوا تھا، اب کوٹھے پر بیٹھنے والی رقاصہ تو وہ ہوتی ہے جو ہر جگہ منہ ماری رہتی ہے، ایک جگہ ٹک کر رہنا تو اس کی خصلت میں نہی ہوتا، بس یہاں بھی یہی ہوا، جب رقاصہ کو یہ سن گن ہوی کہ تھانیدار کا نائب کل کو تھانیدار بن سکتا ہے تو اس رقاصہ نے خاموشی سے تھانیدار کے اس نائب سے ناجائز تعلقات بنا لیے تاکہ اس کی آندھی طاقت ہمیشہ قائم و دائم رہ سکے، اس رقاصہ میں ایک اور خوبی بھی تھی کہ وہ ڈفروں اور سطحی سوچ والے اپنے عام عاشقوں جو کہ اس علاقے میں ریوڑوں کی طرح پاے جاتے تھے کا خون گرمانے کے لیے وقتن فوقتن اپنا جلوہ کرواتی رہتی تھی!!

اب جب کہ اس رقاصہ اور تھانیدار کے نائب کا عشق جوبن پر تھا اور یہ نائب رقاصہ کے کہنے پر اس کے ہر مخالف کو تہس نہس کر رہا تھا، تو تھانیدار کے کسی جاسوس نے تھانیدار کو اس کی خبر کر دی، تھانیدار تو جیسے دل تھام کے بیٹھ گیا، اس کی جوانی کا کرش اس کی بڑھاپے کی جان اس کے ساتھ ایسا بھی کر سکتی ہے، تھانیدار پہلے تو چند دن شدید صدمے میں رہا، لیکن پھر اس نے اس بے وفا رقاصہ کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ایسا سبق جو یہ رقاصہ اپنی باقی ساری زندگی یاد رکھے، تھانیدار کا نائب اس عرصہ میں بہت طاقت ور ہو چکا تھا اس لیے اس کو فورن برطرف کرنا یا سزا دینا تھانیدار کے خلاف بغاوت کھڑی کر سکتا تھا اس لیے تھانیدار نے خاموشی سے نائب کو رقاصہ کی زمہ داری سے ہٹا کر کسی اور جگہ لگا دیا، جس پر رقاصہ نے بہت واویلہ کیا، تھائندار سے جھگڑا بھی کیا، روٹھی بھی، لیکن سب لاحاصل رہا،

تھانیدار نے نائب کو رقاصہ کی زمہ داری سے ہٹانے کے بعد نائب کے لگاے ہوے سارے کارندے بھی ایک ایک کر کے اہم جگہوں سے ہٹا دیے، اس کے بعد تھانیدار نے اپنے دل کو سخت کر کے اپنی ساری فورس کو پیچھے ہٹا لیا اب رقاصہ اچانک عرش سے فرش پر ان گری، رقاصہ کے اردگرد وہ سارے لوگ جو تھانیدار کی وجہ سے موجود ہوتے تھے وہ ایک ایک کر کے پیچھے ہٹ گئے، رقاصہ کی ساری طاقت جو کہ تھانیدار کی مرہون منت تھی یک دم ختم ہو گئی، اب رقاصہ بغیر کسی طاقت کے اس محل میں بیٹھی ہے جو اس کو تھائندار کی مہربانی کی وجہ سے ہی ملا تھا، رقاصہ اب بھی بری طرح سے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے کبھی تھانیدار کے اس نائب سے رابطہ کرتی ہے جو اب سواے مشوروں کے اور کچھ نہی دے سکتا اور کبھی سر عام رنڈیوں کی طرح باہر نکل کر شرفا کو گالیاں نکالنا شروع کر دیتی ہے، اس کے پاس اب صرف اس کے چند دلال ہے رہ گئے ہیں جو اس کو تسلیاں دے رہے ہیں، لیکن اس کا انجام اب دیوار پر لکھا صاف دیکھا جا سکتا ہے،

تھانیدار چاہتا تو اس کو ایک جھٹکے میں ختم کر سکتا تھا لیکن جس طرح اس کا دل اس رقاصہ نے اپنے پیروں تلے کچلا تھا، وہ تھانیدار کے لیے ناقابل قبول تھا اسی لیے تھائندار نے اس رقاصہ کو بری طرح زلیل و رسوا کر کے محل سے نکالنے کا منصوبہ بنایا، اور آج کل رقاصہ اور اس کے سڑک چھاپ چاہنے والوں کی چیخیں اور آہو بکار اسی زلالت کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے، اب تو اس علاقے کا ہر شریف اور ذی شعور انسان اس رقاصہ کی رعونت، بدکرداری، بد نییتی، بد دیانتی، بد خصلتی اور بدزبانی کو اپنے انجام پر پہنچتے دیکھنے کے لیے بے تاب ہے، اور عبرت کا مقام ہے ایسی رقاصاؤں کے کیے بھی جو ہوتی تو رقاصہ ہیں لیکن خواب حکومت اور ملک چلانے کے دیکھتی ہیں، جب ساری عمر روزی روٹی گھنگروں بجا کر اور حسن اور اداوں کے زریعے حاصل کی ہو تو پھر ایسی جگہ پر بیٹھنے کی تمنا کرنا جہاں زہانت، دیانت اور امانت ہی سب کچھ ہو ممکن نہی ہوتا ہاں کبھی کبھی کسی دل پھینک جاہل تھانیدار کی بدولت اگر تکا لگ بھی جاے تو بھی انجام وہی ہوتا ہے جو اس رقاصہ کا ہونے جا رہا ہے!

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے