کالم

یوکرین میں جنگ سے پاکستانی طلبہ کیسے متاثر ہوئے؟

مارچ 25, 2022 3 min

یوکرین میں جنگ سے پاکستانی طلبہ کیسے متاثر ہوئے؟

Reading Time: 3 minutes

دنیا کے آغاز سے ہی جنگ و جدال جاری ہے،پہلے ادوار میں راجاؤں،بادشاہوں نے اپنی طاقت منوانے یا انا پرستی کی خاطر لاکھوں انسانوں کا خون بہایا۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں دو سری عالمی جنگ عظیم کے بعد عراق،لیبیا،ویتنام،فلسطین،افغانستان میں امریکہ،روس جیسے نام نہاد سپر پاور ملکوں نے جنگی سازوسامان کی فروخت کیلئے خونی کھیل کھیلا۔
یوں سمجھ لیجیے جنگ کو کاروبار کے طور پر استعمال کیا گیا۔پہلی جنگ عظیم میں تہتر لاکھ جبکہ دوسری جنگ عظیم میں تقریبا پانچ کروڑ سے زائد انسان لقمہ اجل بنے۔

جنگی ماحول اور اُس کے اثرات

جنگ کے سبب جہاں ملک کی معاشی ابتری ہوتی ہے وہیں انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہوتا ہے۔جنگی ماحول میں خوف کے عالم کے سبب معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے،صحت،تعلیم سمیت ہر شعبہ اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والا شخص متاثر ہوتا ہے۔جنگی ماحول کے سبب شہریو ں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟؟اور تعلیم کا شعبہ کس طرح سے متاثر ہوتا ہے؟؟اس عنوان پر بحث کیلئے ہمارے سامنے حالیہ روس،کوکرائن جنگ کی مثال موجود ہے۔حالیہ روس،یوکرائن جنگ کے سبب یوکرائن میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں کی زندگی کس طرح متاثر ہوئی،کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس پر گفتگو کرنے سے قبل روس،یوکرائن تنازعہ کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔

روس،یوکرائن تنازعہ کا آغاز کب ہوا؟

سنہ 1920 لے کر 1991 تک یوکرائن سوویت یونین کا حصہ رہا،نوے کی دہائی میں جب سوویت یونین کی کانپیں ٹانگنے لگیں تو یوکرائن اُن پہلے چند ممالک میں شامل تھا جس نے سوویت یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔

آزاد زرائع کے مطابق یوکرائن کی سترہ فیصد آبادی روسی تھی جس کے سبب یوکرائن کی روسی آبادی اور مغرب کی حمایت رکھنے والے یوکرائینی باشندوں کے مابین تنازعات کا آغاز ہوا،اسی عرصے میں روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ بھی جاری رہی۔ روس کو یورپ میں قابو کرنے کے لیے امریکہ نے نیٹو کے ساتھ مل کر لیتھیوانیا، پولینڈ اور رومانیہ میں فوج رکھ لی اور ہتھیار نصب کر دیے۔دو ہزار اکیس تک دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پررہی جب حالیہ سال کی فروری میں روس نے یوکرائن پر حملہ کردیا۔

پاکستانی میڈیکل طالب علموں کو یوکرائن میں درپیش مشکلات

حالیہ روس،یوکرائن جنگ کے سبب یوکرائن میں تعلیم کا نظام سب سے زیادہ متاثر ہوا۔مختلف ممالک سے آئے تعلیم کے حصول کیلئے یوکرائن میں زیر تعلیم طالب علموں کو سب سے زیادہ دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔یوکرائن میں تقریبا پندرہ سو پاکستانی رہائش پذیر تھے جن میں پانچ سو طالب علموں کی تعداد بتائی جاتی ہے۔

ایک میڈیکل طالب علم ابوذر کا کہنا ہے کہ کچھ ممالک نے روس کے یوکرائن پر حملے سے پہلے ہی ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے اپنے طالب علموں کو ملک چھوڑنے کا کہہ دیا لیکن پاکستانی سفارتخانے کا موقف تھا جب جنگ شروع ہوگی تو پھر دیکھیں گے۔

میڈیسن کے طالب علم ابو ذر کہتے ہیں ان کا ایک سال میں تعلیم کا خرچ تقریبا سترہ سے اٹھارہ ہزار خرچ آیا،بھارت نے اپنے طالب علموں کو واپس بلا کر ملکی یونیورسٹیوں اور کالجز میں داخلے دلوائے لیکن ہمیں پاکستان نے کہا آپ کو میڈیکل یونیورسٹی یا میڈیکل کالج میں داخلے کیلئے ایم ڈی کیڈ کا ٹیسٹ دینا پڑے گا۔اگر ہم ایم ڈی کیڈ کا ٹیسٹ دیتے ہیں تو پھر ہمارا ایک سال ضائع ہو جائے گا۔یوکرائن میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں کو جنگ کے ماحول میں جہاں خوف کی فضا کا مقابلہ کرنا پڑا وہیں اب اپنے مستقبل کی فکر انھیں کھائے جارہی ہے۔ میڈیسن کے ہی ایک اور طالب علم احتشام الحق نے بتایا کہ یوکرین کے میڈیکل کالج میں سیکنڈ ائیر میں پڑھ رہے تھے کہ اچانک یہ سب ہوا جس کے بعد انکی جانب سے کافی کوشش کی گئی پاکستان سٹیزن پورٹل پر بھی انکی جانب سے اور کئی دیگر طالب علموں کی جانب سے درخواست کی گئی مگر کوئی جواب نہ آیا

حل

دنیا کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جنگ زدہ علاقوں کے افراد کو ریلیف دینے اور اپنے شہریوں کی فلاح کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے کوئی خاطر اقدامات کی مثالیں نہیں ملتیں،یوکرائن میں زیر تعلیم ان طالب علموں کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔خدا خدا کرکے یوکرائن میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں کو جنگی ماحول سے نکال تو لیا گیا لیکن اُنکا مستقبل ابھی محفوظ نہیں ہے۔یہ طالب علم اب یہ مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں انھیں خصوصی ریلیف دیاجائے اور پاکستان کی میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے دیے جائیں،دیگر شرائط و ضوابط میں خصوصی نرمی برتی جائے۔حکومت کو چاہیے جنگی ماحول سے خیر و عافیت واپس اپنے وطن لوٹنے والے طالب علموں کیلئے خصوصی رعایت دی جائے۔ بھارت سمیت دیگر ممالک کی طرح بچوں کے لئے اقدامات کیے جائیں تاکہ ان کی پڑھائی ضائع نہ ہو۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے