آپ نے گھبرانا نہیں !
Reading Time: 4 minutesشنید ہے کہ 30 مارچ کی شام مبینہ دھمکی آمیز خط کے مندرجات وزیراعظم عمران خان کی زبانی سن کر کچھ وزراء آبدیدہ ہو گئے تھے۔
اچھی بنائی ہے ویسے!
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب عمران خان کے لیے باقاعدہ گراؤنڈ بنایا جا رہا تھا۔ میڈیا کو فون آتے تھے کہ انہیں فل کوریج دو ۔ شہرۂ افاق دھرنے کی اینگلنگ کیسی کرنی ہے یہ بھی بتایا جاتا تھا۔ عمران خان کے پرستار اور ڈاکخانے کو قبلہ ماننے والے کالم اور تجزیے بنانے والے اپنے قلموں سے نیا مسیحا تراش رہے تھے۔
عمران خان کی بطور کرکٹ سٹار ایک فین فالونگ تو تھی ہی لیکن سیاسی اٹھان میں جو اچانک تیزی آئی وہ ہرگز آرگینک نہ تھی۔ وہ ایک منصوبہ تھا۔ ایک تجربہ تھا۔
عمران خان کے مخالفین کے ہاتھ پاؤں باندھ کر کپتان کو کھلا کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ الیکٹیبلز اور پیسوں والے ان کےساتھ جوڑے گئے۔ عمران خان نے شوق سے ان کے گلوں میں رنگ برنگی دھجیاں ٹانگیں اور اس دوران اپنے کئی دیرینہ سیاسی رفقاء کو بیچ راہ میں ایسے چھوڑا جیسے انہیں وہ جانتے ہی نہ ہوں۔
بھان متی کا کنبہ ٹائپ اکثریت دلوا کر تجربے کا پہلا مرحلہ کامیاب ہو گیا اور وہ حکومت میں آ گئے۔ وہ بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ منصۂ اقتدار پر جلوہ گر ہوئے لیکن بہت جلد اپنی ٹیم سمیت ایکسپوز ہو گئے۔
سیاسی انجینئرنگ کرنے والے سمجھ گئے کہ ہم سے بلنڈر ہو گیا ہے لیکن کام چلاتے رہے۔ ادھر نیب، ایف آئی اے وغیرہ بھی پھرتیاں دکھاتے رہے۔ لیکن اس کا فائدہ اپوزیشن بالخصوص نواز شریف کو ہوا۔
نواز شریف اور مریم نواز نے اپنے جلسوں میں چند تقریریں ایسی کیں جن سے انجینئرز کی ’ساکھ‘ کو سخت دھچکا لگا۔ ادھر بلاول بھٹو زرداری وغیرہ نے بھی ہلکی پھلکی موسیقی جاری رکھی اور ساتھ ’بات چیت‘ بھی۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور کاریگروں کو ’اںتہائی تنہائی کے ماحول میں ملاقاتوں‘ پر مجبور کیا۔
اس کے بعد ضمنی الیکشن ایک پیمانے کی صورت سامنے آئے جن نے حکمراں جماعت کی مقبولیت کی قلعی کھول کر رکھ دی۔
اس صورت حال کو کاریگر بھانپ گئے۔ انہوں نے اپنے میڈیائی ترجمانوں کی رسیاں ذرا ڈھیلی کیں کہ عمران خان کو ذرا کھینچو، معاملہ اب بگڑ رہا ہے۔ سو اینکروں اور کالم بنانے والوں میں سے بعض نے یکدم پلٹا کھایا اور انہیں ماضی قریب کا مسیحا اچانک ولن لگنے لگا۔ اور ان رائے سازوں کے آہنگ میں ڈاکخانے کی ناراضی صاف جھلکنے لگی۔ اس جوہری تبدیلی کا ہم نے کھلی آنکھ سے مشاہدہ کیا۔
پی ڈی ایم بنی اور جب اس نے ماحول گرمایا تو کاریگر کچھ فکرمند ہوئے۔ بقول ایک دوست طاقتور اپنے ہی جیسوں سے ڈیل کیا کرتے ہیں۔ کمزوروں اور بیساکھیوں والوں سے کوئی ڈیل نہیں ہوتی، انہیں ڈائریکٹ کیا جاتا ہے۔
سو کاریگروں نے عمران خان کے سیاسی مخالفین سے بات چیت کی، انہیں یقین دلایا کہ ’ہم اب پشت پر نہیں‘ ، جو کرنا ہے کر لو۔
اس کے بعد اپوزیشن کو شہ ملی اور اس نے سٹنگ آپریشن شروع کر دیا۔ اپنے جمہوریت، سول بالادستی، ووٹ کو عزت وغیرہ کے راگوں کو دھیما کیا اور ’نیکسٹ کوئسچن پلیز‘ والی پالیسی اپنا کر وہ آخری وار کے لیے صف آراء ہو گئے۔
یہ صورت حال دیکھ کر عمران خان ’بھونتر‘ سے گئے۔ انہوں نے عوامی جلسوں میں پرستاروں کو یہ بتانا شروع کر دیا کہ ’نیوٹرل‘ کسے کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی دینی خدمات اور مغرب کی مزاحمت کی گردان بھی شروع کر دی۔
عمران خان نے ایک جذباتی سا ماحول بنا کر اپنے سچے پرستاروں اور ڈاکخانے کے اشارۂ ابرو پر یوٹیوب کا مواد بنانے والوں کو آزمائش میں ڈال دیا۔ وہ بے چارے کنفیوژن کا شکار ہیں کہ اب کس کا ساتھ دیں؛ نیوٹرل کا یا نیوٹرل کو جانور بتانے والے کا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ عمران خان کی کرسی سرک رہی ہے۔ وہ سخت پریشان ہیں۔ چند دن قبل اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں پراسرار خط لہرا کر انہوں نے ماحول ضرور بنایا لیکن ابھی تک وہ خط معما بنا ہوا ہے۔ اس جلسے میں عمران خان کے پرستار موعودہ سرپرائز کی توقع کے ساتھ شامل ہوئے تھے لیکن انہیں وہاں سے کچھ نہیں ملا۔
ہاں اگلے دو چار روز میں عمران خان نے ایسے سرپرائز ضرور دیے جو پرستاروں کے لیے مایوسی کا سبب بنے۔ مثلاً بزدار ایپی سوڈ۔ اس موقع پر ان کے بعض پرستار ترکی کی ماضی قریب کی تاریخ دہرانے کا عزم کرتے بھی پائے گئے اور کچھ ٹویٹر سپیسز میں ہچکیاں لیتے سنے جاتے رہے ہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ کاریگروں کو اب اپنے لیے محفوظ راستہ درکار ہے۔ وہ ایک ناراض اور بگڑے ہوئے عمران خان سے خوفزدہ ہیں کہ ’کہیں چمن کو جلا نہ دے‘۔ اس لیے وہ نئے مشن پر ہیں۔ وہ باعزت رخصتی چاہتے ہیں جس کی بھیک وہ اب اپوزیشن کے کچھ ہیوی ویٹس سے مانگ رہے ہیں۔
عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زبان لپیٹ کر حلق میں اتار لی ہے یعنی وہ اصل بات کر نہیں پا رہے۔ اگر وہ واضح بات کرتے ہیں تو ان کے پرستار میرے خیال میں اس سے توانائی لیں گے اور یوں اس پارٹی کے سیاسی جماعت اور پرستاروں کے سیاسی ورکرز بننے کے سفر کا آغاز ہو سکتا ہے۔
کاریگروں کی خواہش ہے کہ عمران خان زیادہ کھیچل کیے بغیر رخصت ہو جائیں لیکن یہ بات کرسی پر بیٹھے شخص کو منظور نہیں۔ اب کاریگر گندے ہونے سے بچنے کے لیے کسی درمیانی راہ کی تلاش میں ہیں۔
متحدہ اپوزیشن کا اعتماد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور یہ بھی ماننا چاہیے کہ اعتماد کے گراف کی اس بلندی کی وجوہات خالصتاً آرگینک نہیں ہے۔ بظاہر ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کا فارمولا کارفرما نظر آتا ہے۔ یعنی روایتی پاور پالیٹکس کے معاملات۔ راج نیتی کا دھندہ۔
عمران خان اب کرسی پر رہ جائیں(جس کا امکان بہت موہوم سا ہے) یا کرسی سے اتر جائیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن کاریگروں کا یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام ثابت ہو چکا ہے۔ انہیں اس تجربے کے دوران سخت کچوکے لگے ہیں۔ ایک خاص دیوار پر مسلسل ہونے والی ہیمرنگ نے فرق ڈالا ہے اور وہ فرق محسوس ہوتا ہے۔ رائے عامہ اب وہاں نہیں ہے جہاں پانچ برس قبل تھی۔ ڈاکخانے کے رائے ساز شرمندہ شرمندہ ہیں اور نیا بیانیہ گھڑنے میں انہیں اپنی آڈیئنس کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
سمجھنا چاہیے کہ سماجی اور سیاسی عمل کی رفتار بہت سست ہوا کرتی ہے۔ حالات میں تموج کے نتیجے میں سوچ و فکر میں بھی بدلاؤ آتے ہیں۔ تموج کبھی دائمی نہیں ہوتا۔ کبھی زمانہ آگے کو جاتا ہے تو کبھی کوئی واقعہ عہد کو رجعتِ قہقہری پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ سفر بڑا ہی صبر آزما ہے۔ بالکل ٹیسٹ میچ جیسا!
چلیں! ٹیسٹ میچ دیکھتے ہیں اور ہاں، آپ نے گھبرانا بالکل بھی نہیں۔