کالم

موجودہ حکومت کی ساکھ کیوں نہیں ہوگی؟

اپریل 16, 2022 3 min

موجودہ حکومت کی ساکھ کیوں نہیں ہوگی؟

Reading Time: 3 minutes

ہمیشہ سے ہی یہ کہتا آیا ہوں کہ ہمیں معیاری لیڈر شپ دستیاب نہیں ہے۔
ہماری سیاسی و عسکری لیڈر شپ دنیا کے مقابلے میں اوسط سے کہیں کم ہے۔

یہ بھی عرض کرتا رہا ہوں کہ یہ لیڈر شپ دراصل عوام کا ہی ایک سیمپل ہے یعنی بالکل ویسی ہے جیسی ہماری عوام ہے۔

اسی لئے یہ ممکن نہیں کہ آپ وہ اوصاف شہباز شریف, بلاول, مریم, زرداری یا عمران خان میں ڈھونڈ سکیں جنہیں اپ اعلی اخلاقی اقدار کے نام پر کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں۔سیاستدانوں پر تو بعد میں بات کرتے ہیں کیونکہ انہیں یہ مارجن دینا پڑے گا کہ وہ حد درجہ ان سیکیور رکھے جاتے ہیں اور ان میں سے کچھ کو میر مرتضی بھٹو کی طرح کھر جیسے گھٹیا انسانوں سے سو پاؤنڈ مانگنے پڑتے ہیں یا بار بار جلا وطن ہونا پڑتا ہے اور شوگر کی دوائی کے پیسے نہ ہونے کہ وجہ سے مرنا پڑا۔

پاکستان کا سب سے طاقتور عہدہ چیف آف دی آرمی سٹاف کا ہے اور آپ نے بارہا دیکھا ہوگا کہ اپنی ایکسٹینشن یا اقتدار کے دوام کے لئے وہ سب کچھ کر گذرتے پیں, مشرف کی طرح کراچی میں قتل عام, اوجھڑی کیمپ میں عوام کا قتل عام, عمران خان کا دھرنا اور نواز شریف کا پلیٹلیٹس کے بہانے ملک سے نکل جانا سب اس کی درخشاں مثالیں ہیں۔

متعدد بار یہ بھی تحریر کرچکا ہوں کہ غالب امکان ہے کہ شریف برادران اور زرداری نے کرپشن کی ہوگی, کوٹیکنا کیس میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت کی قربانی دے دینا اور پارک لین اپارٹمنٹس کی منی ٹریل نہ دے سکنا کافی مشکوک حرکات ہیں۔اسی طرح عمران خان جنہیں تبدیلی کے نام پر بالجبر اقتدار میں لانے کا بھیانک تجربہ کیا گیا ہے بھی کرپشن کے چھینٹوں سے پاک نہیں ہیں۔

میں ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں کہ آپ جب تک انصاف کی فراہمی کا کریڈایبل طریقہ نہیں بنائیں گے آپ کی دی ہوئی سزائیں مشکوک رہیں گی۔

پاکستان میں طاقتور اشرافیہ بالخصوص فوجی اشرافیہ اور بالعموم سول اشرافیہ نے پورے نظام انصاف کو آلودہ کردیا ہے۔

میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ کمزور حکومتیں بنانا یا مضبوط حکومتوں کو کمزور کرنے کا پورا عمل پاکستان کی خاکی اسٹیبلشمنٹ کے عارضی طور پر حق میں گیا لیکن وہ حتمی طور پر ملک اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے خلاف گیا۔
پولرائزیشن کی وہ آگ جو اسٹبلیشمنٹ نے اپنے ہی ایک مہرے عمران خان سے شدید کرائی تھی بالآخر انہی کی بنائی ہوئی خیالی دنیا کو جلا رہی ہے۔

میرا ماننا ہے کہ عمران خان کے علاوہ باقی سیاسی لیڈر شپ اور فوجی قیادت کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ اس آگ کو ٹھنڈا کئیے بنا اس ملک کا آگے جانا ممکن نہیں ہے, اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو ان کے ساتھی بھی یہ بات سمجھانے کی کوشش کرچکے ہوں گے لیکن ان کی افتاد طبع ایسی ہے ہی نہیں کہ وہ کسی بھی معقول بات کو اختیار کرسکیں۔

میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ جب عمران خان نے چیف کے ذریعے اپوزیشن کو نئے الیکشن کی پیشکش کی تو انہیں اس شرط پر یہ مان لینی چاہئیے تھی کہ عمران خان علی الاعلان اپوزیشن پر امریکی ایجنٹ اور سازشی ہونے کا الزام واپس لیں اور آئینی تبدیلیاں اسی حکومت سے لارجر کنسینسز
سے کروالی جاتیں۔

میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ عمران خان ناقابل اعتبار اور امپلسو رویوں کے حامل ہیں لیکن ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کے لئے ایسا کوئی بھی امکان جو ان کو اور ان کے عقیدتمند بھگتوں کو مطمئین کر سکے شاید جلتی پر پانی کا کام کرسکتا تھا۔

اس ساری صورتحال کا جو بھی انجام ہو, موجودہ حکومت مدت پوری کرے یا جلد الیکشن کروائے اس سے سیاسی استحکام آنے کے امکان بقدر اشک بلبل ہی ہیں کیونکہ جس طرح عمران خان کی حکومت قطعی طور ال لجٹیمیٹ تھی اس طرح یہ حکومت بھی 123 استعفوں کے بعد کریڈایبل حکومت نہیں ہوگی, ان سے پاکستان کی رکی ہوئی گاڑی کی مرمت کا کام تو لیا جاسکتا ہے لیکن یہ گاڑی رواں دواں اپنے سفر کو جاسکے اور منزل پر پہنچ سکے اس کے امکانات معدوم ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے