عمران کی تقریر نامناسب لیکن دہشت گردی کی دفعات نہیں بنتی:چیف جسٹس
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف اخراج مقدمہ درخواست کی سماعت کے دوران کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر پوچھا تھا کہ 7اے ٹی اے کیسے لگتی ہے ؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 7اے ٹی اے کی سنگین دفعات کو اتنا عام نہ کریں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ عمران خان گزشتہ روز شامل تفتیش ہوئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان نے کیا کہا تھا جس پر دہشت گردی کی دفعات لگیں؟
پراسیکیوٹر نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ آئی جی شرم کرو، آئی جی اور ڈی آئی جی تمہیں نہیں چھوڑنا،عمران خان نے خاتون جج کا نام لے کر کہا تھا شرم کرو ہم آپ کے خلاف بھی ایکشن لیں گے،
چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظر میں عمران خان کا بیان دہشت گردی کی دفعات میں نہیں آتا۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ ججز اور پولیس والوں کو دھمکایا گیا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آئی جی اتنے کمزور ہیں جو ان الفاظ سے ڈر جائیں گے؟ آپ کو لگتا ہے کہ ایک آئی جی اتنا کمزور ہے جو ایسی تقریر کا اثر لے لیں گے۔
رضوان عباسی نے کہا کہ جب وہ شخص سابق وزیراعظم ہو تو پھر اثر ہوتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان بالآخر جا کر اسی پولیس کے سامنے شامل تفتیش ہوئے ہیں، اگر عمران خان نے اسکے بعد آئی جی کے دفتر یا گھر میں حملہ کیا ہو پھر بات ہے،دہشتگردی کے قانون کو ایسا نہ بنائیں کہ یہ عام قانون بن جائے،دہشتگردی کا قانون سنگین دہشتگردوں کے لیے ہے،اگر عمران خان کے بیان کے بعد کوئی حملہ ہوتا تو بات اور تھی، خاتون جج کا تحفظ کرنے کیلئے ہم یہاں موجود ہیں۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی جے آئی ٹی کی میٹنگ ابھی ہونی ہے پھر وہ فیصلہ کرینگے،چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ کون ہے، اس عدالت نے ایک ڈائریکشن دی تھی،جے آئی ٹی کیلئے کیا مشکل تھی کہ کل بیٹھ جاتے اور آج عدالت کو آگاہ کر دیتے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ شاید آج جے آئی ٹی کی میٹنگ ہو اور وہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آئی جی کے دفتر پر حملہ ہوا ہو یا اسکو انہوں نے پکڑ لیا ہو پھر تو الگ بات ہے، کوئی آئی جی اتنا کمزور نہیں ہوتا اور نہ ہے کہ وہ ان الفاظ سے ڈر جائے،