اہم خبریں متفرق خبریں

آڈیو لیکس کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ میں اٹارنی جنرل نے کیا کہا؟

اکتوبر 30, 2023 3 min

آڈیو لیکس کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ میں اٹارنی جنرل نے کیا کہا؟

Reading Time: 3 minutes

سیاست دانوں اور ججز سمیت اہم شخصیات کی آڈیو لیکس کے مقدمے میں اٹارنی جنرل منصور عثمان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی ایک عام شہری نجم الثاقب (سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے) کے خلاف کارروائی کے لیے نوٹس نہیں کر سکتی تھی۔

پیر کو اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ نجم ثاقب ایک عام شہری ہیں جن کی انفرادی حیثیت ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب نے پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے طلب کیے جانے کے نوٹس کو چیلنج کیا تھا جس پر اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنا موقف دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں پارلیمانی کمیٹی آڈیو ٹیپس کے معاملے پر نجم الثاقب کو طلب نہیں کر سکتی تھی اور ویسے بھی پارلیمنٹ کے تحلیل ہونے کے بعد یہ درخواستیں غیر موثر ہو چکی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ اس عدالتی سماعت کو ان کیمرہ کر دیا جائے تاکہ حساس چیزیں باہر نہ نکلیں۔

‏ جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ تھوڑا سا سمجھا دیجیے کہ کیا نجی ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کی جا سکتی ہے اور اس حوالے سے کون اجازت دیتا ہے، قانون کیا کہتا ہے؟

‏ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے یہ طے کرنا ہے کہ یہ ریکارڈنگ خفیہ اداروں نے کی بھی ہے یا نہیں۔

‏ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ججوں، وزیراعظم اور لوگوں کی آڈیوز ریکارڈ کی گئیں اور یہ انتہائی خوفناک بات ہے۔

‏ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان آڈیوز کی حقیقت جانچنے کے لیے وقت چاہیے۔

‏ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ ان آڈیوز کی ریکارڈنگ کے حوالے سے جاننا بہت ضروری ہے، ایک وزیر اعظم کی ریکارڈنگ بھی ہوئی، ایف آئی اے بھی اس کو دیکھ رہی ہے، تو ایف آئی اے نے ابھی تک کیا پتا چلایا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم سے بات کریں، کابینہ سے بات کریں کیونکہ آڈیو ٹیپنگ متعلق کوئی قانونی فریم ورک ہونا چاہیے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے دفتروں اور چیمبروں میں ہماری گفتگو بھی ریکارڈ ہو رہی ہو، میں آپ کو مناسب وقت دوں گا مگر اس پر قانونی دائرہ کار سے متعلق جواب جمع کرایا جائے.

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیکس کیس میں وفاقی حکومت سے کئی قانونی سوالات کے جواب دینے کا نوٹس کیا تھا۔

عدالتی حکمنامے کے مطابق بتایا جائے کہ
‏1.آڈیو ٹیپ کون کس قانون کے تحت کرتا ہے ؟
‏2.کس ادارے کے پاس یہ صلاحیت ہے ؟
‏3.شہریوں کی پرائیویسی کے آئین میں دئیے حق کی خلاف ورزی کا ذمہ دار کون ہے ؟
‏4.کیا آئین اور قانون شہریوں کی کالز کی سرویلنس اور خفیہ ریکارڈنگ کی اجازت دیتا ہے ؟
‏5.اگر فون ریکارڈنگ کی اجازت ہے تو کون سی اتھارٹی یا ایجنسی کس میکنزم کی تحت ریکارڈنگ کر سکتی ہے ؟
‏6.آڈیو ریکارڈنگ کو خفیہ رکھنے اور اس کا غلط استعمال روکنے کے حوالے سے کیا سیف گارڈز ہیں ؟
‏7.اگر اجازت نہیں تو شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی پر کون سی اتھارٹی ذمہ دار ہے ؟
‏8.غیر قانونی ریکارڈ کی گئی کالز ریلیز کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی؟

‏عدالت نے سینئر وکلا اعتزاز احسن ، مخدوم علی خان ، میاںھ رضا ربانی اور سابق ممبر اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا عدالتی معاون بھی مقرر کر رکھا ہے۔

‏سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو لیک پر پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی میں طلبی کے خلاف درخواست پر یہ کاروائی جاری ہے اور بشری بی بی کا کیس بھی اسی کے ساتھ منسلک ہو چکا ہے۔

اس کیس میں 18 ستمبر کو اٹارنی جنرل مصروفیت کی وجہ سے نہیں آئے تھے اور عدالت نے مہلت دے رکھی تھی۔

عدالت نے اپنے آرڈر میں عدالت نے لکھا تھا کہ وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، پی ٹی اے اور وفاقی حکومت کے ڈویژنز اور وزارتیں عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اس لیے 30 اکتوبر تک دوبارہ جواب جمع کرانے کی مہلت دے رہے ہیں اگر پھر بھی واضح جواب نہ دیا گیا تو عدالت کے پاس حساس اداروں کو براہ راست اس کیس میں فریق بنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہ جائے گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے