اہم خبریں متفرق خبریں

پرویز مشرف غداری کیس سپریم کورٹ میں، چار سال سماعت کیوں نہ ہوئی؟

نومبر 10, 2023 4 min

پرویز مشرف غداری کیس سپریم کورٹ میں، چار سال سماعت کیوں نہ ہوئی؟

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف غداری کیس سننے والی خصوصی عدالت ختم کرنے کے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چار رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دیے۔

وکیل نے بتایا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، اپیل پر رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا۔ مشرف کے وکیل نے کہا کہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل پر اس وقت جسٹس عمر بندیال نے چیمبر میں سماعت کی، چیمبر سماعت میں جسٹس عمر بندیال نے فیصلہ دیا کہ کیس کھلی عدالت میں لگایا جائے۔

وکیل کے مطابق جسٹس عمر بندیال نے 25 فروری 2020 کو چیمبر میں آرڈر دیا، اس کے بعد کئی درخواستیں دی گئیں لیکن کیس سماعت کے لیے مقرر نہ ہوا۔

اُن سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ سنہ 2019 سے آج تک کیس سماعت کے لیے کیوں مقرر نہیں کیا گیا؟

وکیل نے کہا کہ شاید اُن کے پاس اس کا جواب نہ ہو۔ جنرل ر پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سنائی گئی سزا کے خلاف براہ راست اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف براہ راست اپیل سپریم کورٹ میں آ سکتی ہے؟

وکیل نے بتایا کہ فوجداری قانون میں ترمیم کے بعد خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی، خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ متفقہ نہیں تھا۔

وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ جنرل ر پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سزا سنائی گئی۔

چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ میں آپ کی درخواست کو نمبر کیوں نہیں لگا؟

وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کیا کہ سزا یافتہ کے سرنڈر کیے بغیر اپیل دائر نہیں ہو سکتی، تب سپریم کورٹ نے ان چیمبر سماعت میں پرویز مشرف کے خلاف اپیل اعتراضات کے ساتھ کھلی عدالت میں مقرر کرنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک ہمارا احتساب نہیں ہوگا دوسروں کا احتساب کیسے کریں؟ چیمبر حکم تھا تو کیس ایک دو ماہ بعد مقرر ہونا چاہیے تھا۔

وکیل نے بتایا کہ پرویز مشرف کی بیماری واضح تھی۔
2020 کے بعد پرویز مشرف کی صحت ایسی نہ تھی کہ ان سے رابطہ کیا جاتا۔ پرویز مشرف کی خرابی صحت کے باعث میں بھی متحرک نہیں رہا۔

وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ پرویز مشرف کی اہلیہ اور بیٹے، بیٹی سے رابطہ میں رہا ہوں۔ عدالت اجازت دے تو پرویز مشرف کے اہلخانہ سے ہدایات لے لیتا ہوں۔

وکیل کے مطابق اپیل مقرر نہ ہونے ہر اہلخانہ میں بھی تشویش تھی۔

چیف جسٹس نے دیگر درخواست گزاروں اور فریقوں سے پوچھا کہ اگر کوئی اعتراض نہ کرے تو پرویز مشرف کی اپیل کو نمبر لگا دیتے ہیں۔

درخواست گزاروں کے وکلا نے پرویز مشرف کی اپیل پر نمبر لگانے پر اعتراض نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے وکیل سےکہا کہ آپ مشرف کے لواحقین سے نئی ہدایات لے لیں کیا وہ اپیل کی پیروی کریں گے،
مشرف کے وکیل کو آئندہ سماعت پر اسلام آباد آنے کی ہدایت بھی کی گئی.

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر متفرق درخواست کی حد تک بات ختم ہے تو آگے بڑھیں.

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں خصوصی عدالت کو غیر آئینی قرار دینے والے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر معاونت نہیں کروں گا، میں اپنا کیس صرف سزا کے خلاف اپیل تک رکھوں گا.

لاہور ہائیکورٹ میں کیس اظہر صدیق اور خواجہ طارق رحیم نے چلایا تھا،ذاتی وجوہات پر اس فیصلے سے متعلق معاونت نہیں کروں گا،وکیل سلمان صفدر

سماعت کے اختتام پر عدالتی حکمنامے میں لکھا گیا کہ مشرف کے وکیل نے بتایا کہ اپیل پر رجسٹرار نے اعتراض لگایا تھا.

وکیل نے بتایا کہ اعتراض کے خلاف اپیل جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں مقرر ہوئی.

وکیل نے بتایا کہ چیمبر سے جج نے کیس لارجر بینچ میں لگانے کا کہا.

وکیل نے بتایا اس کے بعد کیس مقرر نہیں ہوا اور مشرف کی وفات ہو گئی.

پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ آئین پاکستان بھی اپیل کا حق دینے کی بات کرتا ہے،کیس میں تمام فریقین سے پوچھا گیا کہ پرویز مشرف کی اپیل کو مقرر کرنے پر کسی کو اعتراض تو نہیں.

ایڈیشنل اٹارنی جنرل سمیت کسی فریق نے اعتراض نہیں اٹھایا.

افسوس ناک ہے کہ چیمبر میں جج کے حکم کے باوجود اپیل آج تک مقرر نہیں ہوئی.

عدالتی رویے کے سبب کسی ملزم پر الزام نہیں لگایا جاسکتا، سزا یافتہ شخص کا اپیل دائر کرنا اسکا آئینی حق ہے.

مشرف کے وکیل بیوہ، بیٹے اور بیٹی سے رابطہ کریں، حکمنامے میں لکھا گیا کہ سپریم کورٹ آفس مشرف اپیل پر نمبر لگائے.

عدالت نے مشرف کی اپیل پونے چار سال بعد سماعت کیلئے مقرر کردی.

وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کا قیام ہی غیرقانونی قرار دیدیا تھا۔

حامد خان کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق صدر کے خلاف خصوصی عدالت کو جلد ٹرائل مکمل کرنے کو حکم دیا تھا، لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ احکامات کو بھی خاطر میں نہیں لایا۔

حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت کے خلاف دائرہ اختیار نہیں بنتا تھا، سپریم کورٹ یکم اپریل2019 میں خصوصی عدالت کے حوالے سے احکامات دے چکی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے شاید یکم اپریل کی تاریخ کی وجہ سے فیصلے کو سنجیدہ نہیں لیا، کیا آپ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو عدالتی فیصلہ مانتے ہیں؟ کیا خصوصی عدالت کے حوالے سے ماضی میں کوئی مثال ملتی ہے؟

حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ غیرآئینی اور دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔ پہلی مرتبہ آئین شکنی پر کسی کو ٹرائل ہوا تھا۔

ہائی کورٹ کے فیصلے پر اس وقت کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل

حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔

سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کا قیام کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر نوٹس جاری کر دیے۔
سپریم کورٹ نے پرویز مشرف سے متعلقہ اپیلوں پر مزید سماعت 21 نومبر تک ملتوی کر دی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے