اہم خبریں متفرق خبریں

صحافیوں پر مقدمات، چیف جسٹس نے سماعت میں کیا کہا؟

مارچ 11, 2024 3 min
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

صحافیوں پر مقدمات، چیف جسٹس نے سماعت میں کیا کہا؟

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا، ابصار عالم کو گولی مارنے اور اسد طور پر تشدد کے برسوں پرانے مقدمات میں اسلام آباد پولیس کی تفتیشیریورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا ہے۔

پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آئی جی اسلام آباد کے پاس کیسز کی مکمل معلومات نہیں ہیں۔

سماعت کے دوران ایک موقع پر بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ اسد علی طور اس وقت جیل میں ہیں تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ وہ جیل میں کیوں ہیں؟

وکیل نے بتایا کہ ان پر اعلیٰ حکومتی شخصیات کا وقار مجروح کرنے کا الزام لگا کر مقدمہ درج کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسد طور پر جو دفعات لگائی گئیں وہ کیسے بنتی ہیں؟ کیا ہم ججز نے صحافیوں کے خلاف کوئی شکایت کی تھی؟

انہوں نے ایف آئی اے کے حکام سے کہا کہ ججوں کا نام لے کر آپ نے نوٹس بھیج دیے؟ ہمارا کندھا استعمال کر کے کام اپنا نکال رہے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جس ایف آئی اے والے نے ہمارا نام لے کر ایف آئی آر درج کی کیوں نہ اس کے خلاف مقدمے کے اندراج کا حکم جاری کریں؟ آپ کیوں عدلیہ کو بدنام کر رہے ہیں؟ نہ ایف آئی آر میں اس کا تذکرہ ہے، جتنا بھی اس بات کو کھینچ کر لے جائیں قانون کی یہ شقیں نہیں لگائی جا سکتیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت میں اسد طور پر درج ایف آئی آر کا متن پڑھا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایف آئی آر میں جو دفعات ہیں یہ کس طرح لگائی گئی ہیں، آپ ہم سے زیادہ قانون جانتے ہیں بتائیے؟

چیف جسٹس کے پوچھنے پر ایف آئی اے کے حکام خاموش رہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ میں سے کوئی پڑھا لکھا بھی ہے یا نہیں، آپ نے ایف آئی آر میں کسی پروگرام کا ذکر نہیں کیا، کسی ٹویٹ کا ذکر نہیں کیا، صرف ہمارے کندھے پر رکھ کر بندوق چلا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کوئی شکایت کی ہے؟ کسی جج نے یا پھر رجسٹرار نے شکایت کی ہو؟ کیا ہم نے صحافیوں کیخلاف آپ کو کوئی شکایت کی تھی؟

ایف آئی اے کے حکام نے جواب نہیں دیا کہ آپ کی طرف سے کوئی شکایت نہیں آئی،

چیف جسسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ججوں کا نام لے کر آپ نے صحافیوں کو نوٹس بھیج دیے؟ ایف آئی آر میں پھر آپ سول سرونٹس کہہ رہے ہیں ہم تو ججز ہیں، کیا ہم اس شخص کے خلاف ایف آئی آر نہ درج کروائیں جس نے سپریم کورٹ کا نام استعمال کیا ہے، عوام تو اس بات پر یقین بھی کر لیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم میں بہت صبر ہے، لوگ جھوٹی خبریں چلاتے ہیں پوچھتے بھی نہیں اور تردید بھی نہیں کرتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جھوٹی خبر کے بعد اتنا نہیں کرتے کہ ہم سے پوچھ لیں، ہم میں بہت برداشت ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اسد طور کے خلاف مقدمے میں سنگین نوعیت کی دفعات عائد کی گئی ہیں، حساس معلومات سمیت عائد دیگر دفعات کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟ جبکہ انکوائری نوٹس میں لکھا گیا کہ عدلیہ کے خلاف مہم پر طلب کیا جا رہا ہے، ایف آئی آر میں عدلیہ کیخلاف مہم کا ذکر تک نہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات کے اندراج سے پہلے ہی جے آئی ٹی قائم کی گئی، اس جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔

بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی کا نمائندہ جے آئی ٹی میں کیسے شامل ہوسکتا ہے؟ آئی ایس آئی انٹیلیجنس ایجنسی ہے قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہیں، قانون کا نفاذ آئی ایس آئی کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ ایف آئی اے کو توہین عدالت کا نوٹس دیں، سپریم کورٹ کا نام استعمال کرکے تاثر دیا گیا جیسے عدلیہ کے کہنے پر کاروائی ہوئی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس طرح تو عوام میں عدلیہ کا امیج خراب ہوگا، کیا ہم اب عدلیہ کو بدنام کرنے پر ایف آئی اے کے خلاف کاروائی کروا سکتے ہیں؟ ایف آئی اے کے متعلقہ افسر خود عدلیہ کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے