تحریک انصاف کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔
جبسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کی ہے اور معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ تین جون سے مقدمے کی روزانہ سماعت ہوگی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا آئینی اصول کیا ایک تکنیکی اصول سے ختم ہوسکتا ہے.
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ایک سیاسی جماعت نے مخصوص نشستوں کیلئے فہرست جمع نہیں کرائی تو آئین نظر انداز ہو سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ ایک طرف پارلیمانی نظام جمہوریت ہے دوسری طرف پروپوشنل نمائندگی، یہ سوال اہم ہے کہ بانٹی کہ گئیں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہماری لیے کوئی سیاسی جماعت متعلقہ نہیں اہم بات سیاسی جماعت کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے یا نہیں؟
اس کیس کو روازنہ کی بنیاد پر سنیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل نے اپیل میں ہمیں فریق ہی نہیں بنایا.
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارٹی نہیں بنایا پھر بھی بلا رہے ہیں۔جائیں اٹارنی جنرل کو لیکر آئیں ۔
مرکزی سوال یہ ہے کہ 82 نشستوں پر آپ کے مطابق 23 مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا یہ 23 مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جاسکتی ہیں؟ایسا کہیں آئین اور قانون میں ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت تو ہے۔
جسٹس منصورشاہ کا کہنا تھا کہ کیس صرف مخصوص نشستوں کی حد تک سن رہے ہیں، الیکشن کمیشن کا نمائندہ لازمی موجودہو،
درخواست گزاروں کی جانب سے حکم امتناعی میں کیا مانگا گیا ہے؟
وکٰیل نے بتایا کپ ہم صرف ووٹ کی حد تک حکم امتناعی چاہتے ہیں.
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اگر بانٹی گئی نشستیں دوبارہ نہیں بانٹی جا سکتی تو کیا وہ خالی رہیں گی؟
اٹارنی جنرل اور ڈی جی لاء الیکشن کمیشن عدالت میں پیش
سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں،باقی نشستیں انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ
کیا باقی بچی ہوئی نشستیں بھی انہیں دی جاسکتی ہیں؟قانون میں ایسا کچھ ہے؟جسٹس منصور علی شاہ
اگر قانون میں ایسا نہیں تو پھر کیا ایسا کرنا آئینی اسکیم کے خلاف نہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ کا اٹارنی جنرل سے استفسار
کیا الیکشن کمیشن سوموٹو اختیار سے بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہیں جماعتوں کو نہیں دی؟ جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ جو کام ڈائریکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہوسکتا، ایک سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست ہے؟
جسٹس منصور نے پوچھا کہ آئین پاکستان کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہےکہ عوامی امنگوں کے مطابق امور انجام دیئے جائینگے، کیا دوسری مرحلے میں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں.
اگر مزید کچھ سیٹیں بچ جائیں ان کا کیا کرنا ہے۔۔جسٹس اطہر من اللہ
سیاسی جماعت کا مطلب ہوتا ہےوہ جماعت جو انتخابی نشان پر الیکشن لڑے۔۔وکیل الیکشن کمیشن
پارٹی کو رجسٹرڈ ہونا چاہئے ۔وکیل الیکشن کمیشن
بغیر معقول وجہ بتائے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹی گئیں ۔۔جسٹس اطہر من اللہ
مجھے صرف بات مکمل کرنے کے لیے 6سیکنڈ دیئے جائیں ۔۔وکیل الیکشن کمیشن
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کپ ہم آپکو 60گھنٹے دینے کو تیار ہیں.