بحریہ ٹاؤن کے خلاف نیب کا بیان، کیا ملک ریاض کو واپس لایا جا رہا ہے؟
Reading Time: 3 minutesپاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے عوام کو دبئی میں بحریہ ٹاؤن کے نئے رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت متحدہ عرب امارات سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی حوالگی کے لیے قانونی طور پر رجوع کر رہی ہے۔
یہ پیش رفت پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں ملک ریاض اور ان کا بیٹا بھی شریک ملزم اور اشتہاری مجرم ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما اور قانونی ماہرین اس کیس میں تمام ملوث افراد کے احتساب کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں۔
وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بھی کہا تھا کہ دیگر مفروروں کو واپس لانے کے بارے میں مشاورت جاری ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق نیب نے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’ملک ریاض دبئی، متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں دبئی میں لگژری اپارٹمنٹس کی تعمیر کے لیے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ عام لوگوں کو اس نوٹس کے ذریعے مشورہ دیا جاتا ہے اور متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ مذکورہ منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کریں۔ اگر عام لوگ بڑے پیمانے پر مذکورہ منصوبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، تو ان کے اقدامات منی لانڈرنگ کے مترادف ہوں گے، جس کے لیے انہیں مجرمانہ یا قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان قانونی ذرائع سے ملک ریاض کی حوالگی کے لیے متحدہ عرب امارات کی حکومت سے رابطہ کر رہی ہے۔
نیب نے بتایا کہ ملک ریاض اس وقت القادر ٹرسٹ کیس میں مفرور ہیں اور عدالت کو اس کے اور بحریہ ٹاؤن کے بے شمار اثاثے منجمد کر چکے ہیں۔
نیب نے کہا کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے مالک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ’دھوکہ دہی، فریب کاری اور بڑے پیمانے پر عوام کو دھوکہ دینے‘ کی انکوائری اور تحقیقات کر رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ نیب کے پاس اس حقیقت کے بارے میں ٹھوس اور مصدقہ اطلاعات ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے نہ صرف غیر قانونی طور پر سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے بلکہ کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں واقع عام شہریوں کی زمینوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔
’وہ لازمی/ضروری ریگولیٹری اجازتوں/نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ حاصل کیے بغیر ان زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز کی ترقی کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اس نے ریاست اور عام لوگوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر اربوں روپے کی دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا ہے۔‘
نیب نے الزام عائد کیا کہ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کے نام سے پشاور اور جامشورو سمیت دیگر شہروں میں ’غیر قانونی طور پر زمینوں پر قبضے‘ کے ذریعے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا رہا ہے اور وہ لازمی ریگولیٹری اجازت نامے حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ ’ان غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پلاٹس کی فائلیں بیچ کر عوام کو بڑے پیمانے پر دھوکہ دیتے رہے ‘حالانکہ ان کے اور نہ ہی بحریہ ٹاؤن کے پاس ان غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں سے کسی بھی زمین کی ملکیت کا واضح ثبوت ہے۔
پچھلے سال مئی میں پراپرٹی ٹائیکون نے ایک غیر معمولی سوشل میڈیا پوسٹ میں شکایت کی تھی کہ اسے سیاسی فیصلہ لینے کے لیے ’دباؤ‘ اور مالی نقصان کا سامنا ہے، لیکن اس نے ’سیاسی مقاصد کے لیے پیادے‘ کے طور پر استعمال نہ ہونے کا عہد کیا۔
ملک ریاض پر ماضی کے کئی مقدمات ہیں جن میں ان کے رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس کے لیے زمین کے حصول کے حربے استعمال کرنے کا الزام ہے۔ وہ اور اس کی فرم متعدد عدالتی مقدمات کے مرکز میں بھی رہے ہیں۔
حال ہی میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے زمین کے حصول کے لیے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کی جانب سے سندھ حکومت کو واجب الادا رقم ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
پراپرٹی ٹائیکون – جو سیاسی جماعتوں، میڈیا اور ملک کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے اچھی طرح سے جڑے ہوئے سمجھے جاتے ہیں – نے ابھی تک نیب کے اس بیان پر توجہ نہیں دی۔