اہم

دوسری ہائیکورٹ سے چیف بنانے کے لیے جج لانا آئین سے فراڈ: سات ججز کا خط

جنوری 31, 2025 4 min

دوسری ہائیکورٹ سے چیف بنانے کے لیے جج لانا آئین سے فراڈ: سات ججز کا خط

Reading Time: 4 minutes

اسلام آباد ہائیکورٹ کے سات ججوں نے پاکستان کے چیف جسٹس کو ایک خط میں کہا ہے کہ ملک کی کسی دوسری ہائی کورٹ سے جج لا کر اُن کو چیف جسٹس کے طور پر زیرِغور لانے کو آئین کے ساتھ فراڈ سمجھا جائے گا۔

خط لکھنے والوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی بھی شامل ہیں۔

خط پر سات ججز کے نام لکھے ہیں جبکہ پانچ ججز نے دستخط کیے ہیں.

عدالتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمد جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی سمیت اسلام آباد ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو خط لکھا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ میڈیا میں دوسری ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج تعینات کرنے کی خبریں رپورٹ ہوئی ہیں، بار ایسوسی اِیشنز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے ایک جج کو ٹرانسفر کیا جانا ہے، اس کے بعد ٹرانسفر کیے گیے جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر زیر غور لایا جائے گا۔

خط کے مطابق سندھ ہائی کورٹ سے بھی ایک جج کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کی تجویز زیر غور ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ کا جج بنایا جانا متوقع ہے اس لیے عدالتی بیوروکریسی میں مبینہ طور پر موجودہ چیف جسٹس ہائی کورٹ کی ترقی کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کی سربراہی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے ایک جج لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ججز کے خط میں کہا گیا کہ دوسری ہائی کورٹ سے جج لانے کے لیے اس کی وجوہات دینا اور بامعنی مشاورت بھی ضروری ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کی نسبت لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا کیسز کی کہیں زیادہ بلکہ 2 لاکھ تک ہے۔

ججز نے اپنے خط میں سوال اٹھایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری ججز کی سنیارٹی کیسے تبدیل ہو سکتی ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہی 3 سینئر ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس بنایا جائے، کسی دوسری ہائی کورٹ سے جج، چیف جسٹس بنانے کے لیے نا لایا جائے۔

خط لکھنے والے ججز نے کہا ہے کہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں جج کی تبادلے کا عمل آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہوتا ہے، مگر یہ صدر مملکت کی چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں متعلقہ ہائی کورٹ کے ججز سے مشاورت کے بعد ممکن ہے۔

خط میں کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ سے جج اگر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو وہ آئین کے مطابق چیف جسٹس نہیں بن سکتا، جج کا حلف اس ہائی کورٹ کے لیے ہوتا ہے جس میں وہ کام شروع کرے گا، ٹرانسفر ہونے والے جج کو آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں کام شروع کرنے سے پہلے نیا حلف اٹھانا پڑے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے ٹرانسفر ہونے والے جج کی سینیارٹی اس نئے حلف کے مطابق طے کی جائے گی۔

ججز کے خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ یہ طے کر چکی ہے کہ سینیارٹی کا تعین متعلقہ ہائیکورٹ میں حلف لینے کے دن سے کیا جائے گا، لاہور ہائی کورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا تو یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہو گا۔

ججز خط میں کہا گیا کہ آئین کے مطابق ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اسی ہائی کورٹ کے 3 سینئر ججز میں سے تعینات کیا جائے گا. کسی اور ہائی کورٹ سے سینیارٹی میں نچلے درجے کے جج کو دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کر کے چیف جسٹس کے لیے زیرغور لانا آئین کے مقصد کو شکست دینے کے مترادف ہے۔

اس میں کہا گیا کہ آئین پاکستان میں فیڈرل جوڈیشل سروس کا کوئی تصور موجود نہیں اور تمام ہائی کورٹس آزاد اور خود مختار ہیں، ہائی کورٹ میں جو ججز تعینات کیے جاتے ہیں وہ صرف اس مخصوص صوبے کی ہائی کورٹ کے لیے حلف لیتے ہیں۔

ججز خط کے مطابق 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان میں سیاسی جمہوری حکومتوں کے ادوار میں آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہائیکورٹ کے مستقل جج کی تعیناتی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

روایتی طور پر ہائی کورٹ کے سینئر جج کو چیف جسٹس مقرر کیا جاتا ہے لیکن رواں سال کے شروع میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے 26ویں ترمیم کی روشنی میں سنیارٹی کے معیار کے حوالے سے نئے قواعد متعارف کرائے تھے۔

جوڈیشل کمیشن نے تجویز پیش کی کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 5 سینئر ترین ججوں کے پینل میں سے کیا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی جو سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھے، انہیں خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے سینئر ترین جج منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو کے بجائے چیف جسٹس مقرر کیا، اسی طرح موجودہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عالیہ نیلم سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھیں لیکن جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے سینئر جج شجاعت علی خان اور جسٹس علی باقر نجفی کے بجائے انہیں منتخب کیا۔

ذرائع کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ کیے جانے کا امکان ہے، وہ 8 جون 2015 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر کیے گئے تھے۔

تبادلے کے بعد جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کے سپریم کورٹ میں تعینات ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج بن جائیں گے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے