پاکستان

قبضہ مافیا کے وکیل کی بے چینی

جنوری 4, 2018 3 min

قبضہ مافیا کے وکیل کی بے چینی

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے مری میں زمین پر قبضہ کرکے ہاﺅسنگ سوسائٹیز بنانے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب کے محکمہ جنگلات کی زمین پر بحریہ ٹاﺅن کے تین اور کامنرز ٹاﺅن کے دو پراجیکٹس کے تحت پہاڑوں کو کاٹ کر پلاٹ بنائے جارہے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سننے میں آیاہے کہ کوئی بھی شخص خالی جگہ دیکھ کر تعمیرات شروع کر دیتا ہے، یہ شاملات کی زمین ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ شاملات کی زمین پر تعمیرات نہیں کی گئیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہماری تشویش اس قدر ہے کہ زمین کس مقصد کیلئے تھی اور اس کا استعمال کیا ہو رہا ہے؟۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ اسکائی کامنرز ٹاﺅن کے پاس کل چھ ہزار اٹھاسی کنال زمین ہے، اس میں سے تیس کنال پر قبضہ کیا تھا جو واگزار کرکے تعمیراتی کام روک دیا ہے۔ اس موقع پر سوسائٹی کے وکیل اعتزاز احسن (سیخ پا ہوتے ہوئے) بولے کہ ہم اس تیس کنال کے بدلے میں محکمہ جنگلات کو ساٹھ کنال دینے کو تیار ہیں، سوسائٹی نے اس رقبے پر تعمیرات کرلی ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ محکمہ مال کے قوانین میں اس زمین کے تبادلے کی گنجائش نہیں۔ عدالت کو جب ریکارڈ دکھایا گیا تو جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ یہ دستاویزات واضح نہیں ہیں۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہمیں اصل ریکارڈ دکھائیں جس میں پرانے مالکان کے نام درج ہیں، بتایاجائے کہ زمین کس مقصد کیلئے تھی۔ اعتزازاحسن ایک بار پھر سخت غصے کے انداز میں آگے بڑھے اور کہا کہ آپ نے تو انکوائری شروع کر دی ہے، اگر ایک سوسائٹی کو دیکھنا شروع کیا ہے تو پھر سب کیلئے ایسا ہی کرنا ہوگا، اگر انکوائری کرانا ہے تو عدالت خود نہ کرے کسی متعلقہ ادارے کو ہدایت دے۔جسٹس اعجازافضل (وکیل کے تلملانے کو سمجھتے ہوئے) کہنے لگے کہ آپ پریشان نہ ہوں، ہم چیزوں کو سمجھنا چاہتے ہیں، وہ دن گئے جب پٹواری اور گرداور اپنا کام درست طریقے سے کرتے تھے، اسی لیے ریکارڈ طلب کر رہے ہیں تاکہ یہ ابہام ختم ہوسکے کہ اگر زمین کے ایک حصہ دار نے اپنا ٹکڑا بیچ دیا تھا تو باقی زمین پر کیسے قبضہ کرلیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ جنہوں نے زمین بیچی انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ عدالت کے سامنے کچھ اعتراض آئے ہیں، تشویش یہ ہے کہ جنگلات کی زمین سوسائٹی کے استعمال میں نہیں آنی چاہیے۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ گزشتہ سماعت پر بھی محکمہ مال کا ریکارڈ اور نقشے طلب کیے تھے جو فراہم نہیں کیے گئے، ستر کی دہائی میں اس زمین کے استعمال کا ورکنگ پلان تیار ہوا تھا وہ کہاں ہے۔ محکمہ مال کے افسر نے انیس سو پچاسی کا نقشہ عدالت کے سامنے رکھا تو جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم نے ستر کی دہائی کی دستاویزات مانگی ہیں محکمہ مال پیش کرے۔جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیاکہ علاقے میں برساتی نالے اور قدرتی آبی گزرگاہیں تھیں کیا اب بھی موجود ہیں؟۔ محکمہ مال کے افسر نے بتایا کہ صر ف ایک برساتی نالے پر بحریہ ٹاﺅن نے پل بناکر اس کاراستہ روک دیا تھا، کارروائی کی ہے۔جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ اس کے بارے میں واضح طور پر بتائیں کہ برساتی نالے موجود ہیں اور کسی نے قبضہ نہیں کیا۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ یہ ہدایات پہلے بھی جاری کی تھیں مگر کوئی عمل نہیں ہوا، ہمارے خدشات کسی فرد کے حوالے سے نہیں ہیں، اگر کسی نے قانونی طریقے سے سرمایہ کاری کی ہے تو اسے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، سب واضح ہوجائے گا۔
عدالت نے حکم نامے میں لکھا کہ پنجاب حکومت اور محکمہ مال کی رپورٹس اطمینان بخش نہیں ہیں، عدالت کی ہدایت کے مطابق مکمل ریکارڈ فراہم نہیں کیاگیا، یہ بھی نہیں بتایا گیاکہ زمین کس نوعیت کی ہے، ایڈووکیٹ جنرل دوہفتے میں تیاری کرکے آئیں۔ وکیل اعتزاز احسن نے کہاکہ ہماری سوسائٹی کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ایسا نہیں کرسکتے، آپ کی سوسائٹی کی وجہ سے ہی سماعت صرف دوہفتے کیلئے ملتوی کر رہے ہیں، چوبیس جنوری کو دوبارہ سنا جائے گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے