کیا عدالت بھی رشوت دے؟ جسٹس گلزار
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ میں لیڈی ہیلتھ ورکرز سروس اسٹرکچر عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران چیف کمشنر اسلام آباد کو عدالت حاضری میں تاخیر مہنگی پڑ گئی۔
جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت کے بلانے پر ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچنے والے چیف کمشنر سے جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ بروقت عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے؟ چیف کمشنر نے کہاکہ سمجھا تھا کہ جواب بھیج دیاہے تو کافی ہے، جسٹس گلزار نے کہاکہ جواب بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں تھی کیوں تکلیف کی، جمع کرائے جواب پر دستخط کیے تو پیش کیوں نہیں ہوتے؟ چیف کمشنر نے کہاکہ ایف الیون سے آنے میں تاخیر ہوگئی۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایف الیون دس منٹ کے فاصلے پر ہے، لگتا ہے بڑے افسر ہیں، عدالتی حکم پر عمل کیوں نہیں کیا؟ کیوں نہ آپ کے خلاف حکم جاری کیا جائے، آپ نے عدالتی حکم کو سنجیدہ نہیں لیا،کیوں نہ آپ کو ابھی جیل بھیج دیں؟ ۔ چیف کمشنر نے کہاکہ عدالت سے معافی مانگتا ہوں، وزارت کو سمری بھیجی ہے انتظار ہے۔ جسٹس گلزار نے کہاکہ کیا اس فائل پر کوئی پہیے لگائے گا، اٹھارہ مئی دوہزار سترہ کا عدالتی حکم ہے؟۔ چیف کمشنر نے بتایاکہ ستائیس دسمبر کو سمری بھیجی ہے، عمل یقینی بنائیں گے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، جب عدالتی حکم پر عمل کا یہ حال ہے تو جہاں حکم نہ ہواس کام کا کیا ہوگا۔
جسٹس گلزار احمد نے چیف کمشنر کو مخاطب کرکے کہاکہ لگتا ہے کہ پیسوں کے بغیر کام نہیں ہوتا، کیا عدالت بھی حکم پر عمل کرانے کے پیسے دے؟ ۔ عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے حکم لکھوایا کہ اگر لیڈی ہیلتھ ورکرز کیلئے سروس اسٹرکچر منظور نہ ہواتو چیف کمشنر ذاتی طور پر ذمہ دار ہوں گے، سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ دو ہفتے میں بقایا جات اور سروس اسٹرکچر منظورکرکے رپورٹ دی جائے۔