پی سی او جج سپریم کورٹ پہنچ گئے
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ کے سات ججوں پر مشتمل لارجر بنچ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پی سی او ججوں کی نظر ثانی اپیلوں اور آئینی درخواست کی سماعت کی_
پی سی او کے تحت پرویز مشرف کی ایمرجنسی کے بعد حلف اٹھانے والے ججوں شبر رضا اور حسنات احمد خان نے عدالت میں چیف جسٹس سے درخواست کی کہ ججوں کو نکالنے والے اکتیس جولائی دو ہزار نو کے فیصلے پر عدالتی نظر ثانی کی جائے _
حسنات احمد خان نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں پرویز مشرف کے خلاف کچھ بھی نہیں لکھا گیا اور وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس کو نوٹس جاری کیا گیا اور نہ ہی سنا گیا، تو ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے کیوں ایسا نہیں کیا گیا، ہمیں نوٹس جاری کیا گیا اور نہ سنا گیا_ اب ہمیں پنشن بھی نہیں دی جا رہی _
چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے مقدمے کا پس منظر بتا دیں _ پی سی او ججوں اور ان کے وکیل علی سبطین فضلی نے بتایا کہ 9 مارچ 2007 کو پرویز مشرف نے افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹایا، تین نومبر دو ہزار سات کو ڈکٹیٹر نے ایمرجنسی نافذ کردی اور اسی دوران افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نے ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف حکم جاری کیا اور کہا کہ جج حلف نہ اٹھائیں، بعدازاں بحالی کے بعد افتخار محمد چوہدری کی عدالت نے اکتیس جولائی دو ہزار نو کو ایک فیصلہ دیا اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو فارغ کر دیا _اور ان کے خلاف توہین عدالت کیس کا بھی کہا_ گیارہ ستمبر دو ہزار گیارہ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سوال اٹھایا کہ کیا ججوں پر توہین عدالت لگ سکتی ہے؟ مگر اسی بنچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا کہ قانون میں فرد کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اعلی عدلیہ کے جج بھی افراد ہیں اس لیے توہین عدالت لگ سکتی ہے، اور یہ افراد تو ہٹائے جانے کے بعد جج رہے ہی نہیں _ جسٹس جواد ایس خواجہ نے تو اس وقت کے سپریم کورٹ کے جج زاہد حسین کے خلاف بھی اسی فیصلے میں لکھ دیا تھا _
چیف جسٹس نے ثابت نثار نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم وہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیں تو معاملہ ختم ہو جائے گا؟_ پی سی او ججوں کے وکیل نے کہا کہ وہ آپ کی مہربانی ہے مگر یہاں ہم آئینی درخواست دائر کر کے آئے ہیں کہ ہمارے خلاف جاری کیا گیا فیصلہ خلاف قانون تھا اور قانون کی نذر میں ایسا فیصلہ دیا ہی نہیں جا سکتا _ ہم نے اپیل کی تھی مگر رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراضات لگائے اور پھر نہ سنا گیا _
پی سی او ججوں نے مزید کچھ کہنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہ کہیں جس سے عدالت کی تکریم پر حرف آئے _
اس کے بعد سپریم کورٹ نے شبر رضا اور حسنات احمد (پی سی او ججز) کی آئینی درخواست خارج کردی جبکہ پنشن و مراعات کے لیے ہائیکورٹس کے دس سابق ججوں کی نظر ثانی درخواستیں واپس لینے کی وجہ سے نمٹا دیں_
دلچسپ امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ہائی کورٹ کے بعض سابق ججوں کو کم مدت ملازمت کی وجہ سے پنشن کے لیے نااہل قرار دیا تھا جب کہ نظر ثانی اپیلوں کے فیصلے میں ان سے حاصل کی گئی پنشن واپس لینے کے بھی احکامات جاری کئے گئے جس کے بعد غیر معمولی طور پر دوسری بار نظر ثانی کی گئی اور پانچ ججوں نے پنشن واپس کرنے کا تین ججوں کا فیصلہ تبدیل کیا _
آج اس مقدمے کو سننے کے لیے سات جج بیٹھے _