ججوں کے پش اپس
Reading Time: 5 minutesاے وحید مراد
کام بہت آسان تھا اور پہلے دن ہونا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبرایک میں جس وقت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی دیگر چار ججوں کے ہمراہ آکر براجمان ہوئے تب ساٹھ نشستوں کی گنجائش والی جگہ پر ڈیڑسو افراد سمائے ہوئے تھے۔ بڑی تعداد وکیلوں کی تھی اور صحافی ان کی برابری کررہے تھے، سیاست دانوں میں تحریک انصاف کے ارکان بھی تھے اور حکومتی وزراءبھی تشریف رکھے ہوئے تھے ۔ جج صرف پانچ تھے مگر تمام نگاہوں کا مرکز اور کانوں کا محور تھے ۔ چیف جسٹس نے سماعت کا آغاز ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز سے کیا، کہاکہ ہم نے پیشی کی تاریخ مقرر کی تو سنسنی پھیلا کر غلط پیغام دیا گیا، کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے اپنی مقرر کی گئی تاریخ پر نظرثانی کردی ہے، چیف جسٹس نے میڈیا کی سنسنی خیزی کو غیر ضروری اور افسوسناک قراردیتے ہوئے کہاکہ خبرذمہ داری کے ساتھ دی جائے۔
وزیراعظم نوازشریف اور ان کے اہل خانہ کے وکیل سلمان اسلم نے عدالت سے جواب دینے کیلئے مہلت طلب کی جس پر ججوں نے کہاکہ اب تک جواب جمع کرادیاجاتا تو بہتر ہوتا، پہلے ہی 12دن ہوگئے۔ اٹارنی جنرل کی باری آئی تو کہنے لگے کہ مجھے تاثر ملا تھاکہ پہلے عدالت کے دائرہ اختیار اور درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل ہونگے اس لیے تحریری طورپر کچھ لکھ کر پیش نہیں کیا۔ اس کے بعد قومی احتساب بیورو نیب کی آواز لگائی گئی تو پراسیکیوٹر جنرل وقاص ڈار سامنے آئے۔ عدالت کے پوچھنے پر کہنے لگے کہ پانامہ پیپرز کی تحقیقات ہمارے دائر اختیار سے باہر ہے، ہم صرف ملک قوانین کے تحت ہی کارروائی کرسکتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ کیا نیب آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا؟۔ نیب وکیل نے جواب دیاکہ ہمارے سامنے ایسی دستاویزات یا ثبوت نہیں آئے جن کی بنیاد پر کارروائی شروع کرتے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تحقیقاتی ادارہ کہہ رہاہے کہ تفتیش کرنا ہمارا کام نہیں، کوئی ثبوت لے کر آئے گا تو کارروائی کریں گے۔ نیب کا جواب مایوس کن ہے، قومی ادارہ اسی مقصد کیلئے بنایاگیاتھاکہ اس طرح کے معاملات میں کارروائی کرے۔ یہاں سے سپریم کورٹ کے سب سے ذہین جج آصف سعید کھوسہ نے انٹری دی اور پانسہ پلٹ دیا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے سوال کیاکہ نیب کے پاس کوئی شکایت آئی؟۔ نیب کے وکیل نے جواب دیاکہ درخواستیں آئی ہیں مگر ہمارے قوانین میں گنجائش نہیں، دوسری جانب پانامہ پیپرز کروڑوں صفحات پر مشتمل ہیں چھان پھٹک نہیں کرسکتے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے پوچھا تو کیا نیب نے درخواستوں پر فیصلہ کرکے مسترد کردیا ہے؟۔ نیب وکیل نے کہاکہ ایسا بھی نہیں کیاگیا۔ پھر جسٹس آصف کھوسہ نے قوانین پڑھنے شروع کیے اور تحقیقاتی ادارے کے وکیل کو بتایا کہ قانون میں بہت گنجائش ہے، آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے پر جواب مانگا جاسکتاہے، ہم نیب کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب کاجائزہ لیں گے، اور چیئرمین نیب کے خلاف بھی کارروائی کریںگے، عدالت کو یہ جواب/پیغام دیاگیا ہے کہ کوئی ادارہ پانامہ پیپرز معاملے کی تحقیقات نہیں کرنا چاہتا، اب سپریم کورٹ ملک کے سب سے اعلی ادارے کی حیثیت سے اس معاملے کو دیکھے گی۔
عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کو بلایا جنہوں نے دلائل کے آغاز میں کیس کا پس منظر بتانا شروع کیا، پہلے صحافیوں کے اس عالمی کنسورشیم کا نام بھول گئے جس نے خبر شائع کی تھی اور پھر جب عدالت نے پوچھا کہ صحافیوں کا یہ کنسورشیم کہاں ہے تو جواب دیا کہ پانامہ میں۔ اس پر عدالت میں بیٹھے کئی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ میرا خیال ہے کہ حامد خان جیسے کہنہ مشق وکیل اور نہایت نفیس شخص سے یہ غلطی سرزد نہ ہوتی اگر وہ گزشتہ رات کی سپریم کورٹ بار الیکشن کی جیت کے خمار میں نہ ہوتے۔ خیر حامد خان نے تفصیل سے شریف خاندان کی لندن میں جائیداد /کمپنیوں کی معلومات عدالت میں بیان کیں، نیلسن، نیسکول کمپنیاں کس کی ہیں اور لندن کے فلیٹس اور جائیدادوں کا کیا معمہ ہے حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ وزیراعظم کے پانامہ پیپرز کے وضاحتی بیان کو بھی عدالت میں پڑھاجس میں کہا گیا تھا کہ 2005میں جدہ اسٹیل مل بیچ کر لندن میں فلیٹس خریدے گئے۔ حامد خان نے کہاکہ فلیٹس جس کمپنی کی ملکیت ہیں وہ 1993میں خریدی گئی جبکہ 1999میں لندن کے ایک عدالت کے سامنے شریف خاندان نے چار جائیدادیں گروی رکھیں۔ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن نے سوالات کیے، پوچھاکہ کمپنیاں کب بنیں، کب کس نے کس کو بیچیں، مالک کون تھا، پیسے کہاں سے، کس کو، کس ذریعے سے گئے؟ ان تمام معلومات کے ملنے سے ہی کڑیاں ملائی جاسکیں گی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے سوال کیاکہ نیسکول کمپنی 2005 سے پہلے کس کی ملکیت تھی؟۔ حامد خان نے جواب دیاکہ پانامہ پیپرز یہ تو بتاتے ہیں کہ یہ کمپنی 2012 میں مریم نواز کے نام پر ہے مگر کب سے ہے اس بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ان تمام سوالوں کے جواب تفتیشی اداروں نے حاصل کرنے ہیں، ہم میں سے کسی کاکام نہیں۔ ہم شرلاک ہومز نہیں بن سکتے۔ مختلف تفتیشی اداروں نے نااہلی یا دیگر وجوہات کی بناءپر اس معاملے کو ہاتھ لگانے سے انکار کیا۔ معاملہ کیسے حل کیا جائے؟ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سپریم کورٹ خود فریقین سے دستاویزات مانگے، سنے اور اپنی رائے یا فیصلہ دے۔ مگر اس کے بعد کیا ہوگا؟عدالت یا کمیشن اپنا فیصلہ دیدے تو ایک سمجھوتے کے تحت ہی اس پر عمل کیا جاسکتاہے جو فریقین کے مابین ہو، کیونکہ کمیشن کے نتائج/تجاویز اس درجے میں نہیں ہوتیں کہ خودبخود عمل ہوجائے۔ چیف جسٹس نے سوال کیاکہ ہم آرٹیکل 184تین کے تحت درخواستوں کی سماعت کررہے ہیں، فوجداری مقدمے میں کیسے تبدیل کرسکتے ہیں؟۔ سپریم کورٹ تفتیش نہیں کرسکتی، ہوسکتا ہے تفصیلی تحقیقات عدالت کی زیرنگرانی ہوں مگر کیا سپریم کورٹ آئین وقانون کے مطابق تفتیشی ادارے کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ وکیل حامد خان نے کہاکہ سپریم کورٹ حج کرپشن سمیت دیگر کئی مقدمات میں تفتیش کراچکی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ وہ تحقیقات بھی تفتیشی اداروں کے ذریعے ہی کرائی گئیں تھی۔ کیا آپ عدالتی کارروائی کے ذریعے فیصلہ چاہتے ہیں یا عدالتی کمیشن ؟۔ وکیل حامد خان نے کہاکہ آخری فیصلہ سپریم کورٹ نے کرناہے کمیشن کی رپورٹ بھی عدالت میں ہی آئے گی مگر کمیشن بااختیار ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کمیشن اور اس کے نتائج تمام فریقوں کو قبول کرنا ہونگے اور اس کیلئے تحریری طورپر لکھ کر دینا ہوگا۔ شریف خاندان کے وکیل نے عدالت کو اپنی آمادگی سے آگاہ کیا تو تحریک انصاف کے وکیل نے کہاکہ تحقیق وتفتیش کا دائرہ کار محدود نہیں ہوناچاہیے اور وہ ٹیکس گوشواروں کی بھی چھان بین کرے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کمیشن کے پاس تمام معاملات کی جانچ پڑتال کا مینڈیٹ ہوگا۔ ہم فریقوں سے کہتے ہیں کہ ملک کو بحران اور بدامنی سے بچائیں، توقع کرتے ہیں کہ تمام فریق اپنے سخت موقف میں لچک پیداکرکے صبروتحمل سے کام لیں گے۔ شریف خاندان کے وکیل نے تین دن کی مہلت طلب کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں مزید کیا تیار ی کرنی ہے، دونوں فریق آٹھ ماہ سے تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہیں، اور اب تو پش اپس لگانے کی نوبت آگئی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہم اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں اور جتنا جلدی ممکن ہوا فیصلہ کریں گے۔ سیاست جاری رہے گی مگر یہ مسئلہ ہم حل کریں گے، گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی پریشان ہیں، ملک کی سب سے بڑی عدالت میں مقدمہ سنا جا رہا ہے، سارے فریق پرسکون جائیں اور اپنے اپنے گھوڑے چھاﺅں میں باندھ لیں ۔ آخرمیں عدالت نے شیخ رشید کو بلایا اور پوچھا کہ کیا کمیشن بننے سے مطمئن ہوں گے تو کیمروں کو دیکھ کر بھاشن جھاڑنے والے شیخ نے سرجھکا کر کہا، ’عدالت جو فیصلہ کرے گی مجھے قبول ہوگا‘۔