خواہشوں کی کشتی پر بے عملی کا سفر
Reading Time: 3 minutesعمران وسیم
سیاستدان ہو یا دانشور، سیاسی کارکن ہو یا سول ملٹری بیوروکریسی، صحافی ہو یا عام آدمی، ہر شعبہ زندگی سے وابستہ لوگوں میں ایک خواہش مشترک ہے کہ ہمیں وہ پاکستان چاہیے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا، جس کا حصول قائداعظم اور ان کے ساتهیوں کی رہنمائی میں مسلمانوں کی جدوجہد اور لاتعداد قربانیوں کےعوض ممکن ہوا _
پاکستان کا قیام عمل میں آئے 68 سال کا عرصہ بیت چکا ہے، اتنا طویل سفر طے کرنے کے باوجود آج بهی ہمارے نام نہاد سیاسی و سماجی رہنما یہ کہتے تهکتے نہیں کہ ہم جس پاکستان میں رہتے ہیں یہ قائداعظم کا پاکستان نہیں، یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب علامہ اقبال اور جس کے نظام سیاست کا تصور مسلم لیگ نے پیش کیا تھا _ ایک جانب یہ نام نہاد قومی رہنما یہ رونا روتے ہیں تو دوسری جانب ذاتی مفاد کی خاطر ہر وہ قدم اٹهانے کے لیے تیار رہتے ہیں جس کا فائدہ انکی اپنی ذات کو اور نقصان اس ملک خدا داد کو ہو _ وہ ملک جسے ہمارے بزرگوں نے جانے کتنی ہی قربانیاں دیکر حاصل کیا تھا کیسے لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے _
قائد اعظم کے پاکستان کے دوبارہ حصول کا نعرہ لگانے والے سیاست میں بھرپور حصہ لینے آئے مگر کبھی غیر جمہوری لوگوں کے پولنگ ایجنٹ بنتے رہے، کبھی سیاسی مخالفت کی وجہ سے غیر آئینی اقدام پر مٹهائیاں بانٹتے رہے، کبھی عوام کی جانب سے مسترد کیے جانے پر مایوسی میں ڈکٹیٹر کو دس بار وردی میں منتخب کرانے کے دعوے کرتے رہے، قوم کے محافظوں کی خاکی وردی کو سیاسی کیچڑ میں لت پت کر کے بے توقیر کرنے والے بڑے فخر سے خود کو قائداعظم کی جماعت کا سیاسی وارث بھی کہتے رہے، زندگی بھر جمہوریت کا دم بھرنے والے جمہوری رہنما کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا تھا کہ آمریت کو ڈیموکریٹک نظام سے بہتر سمجھنے والے اس کو بھی قائداعظم کے تصور پاکستان کے مطابق کہہ کر دھڑلے سے پھیلاتے رہے _ اس کے بعد میثاق جمہوریت ہوا تو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے برداشت و تحمل کا رویہ اپنایا _ مگر زیادہ عرصہ سکون سے نہیں گزرا تھا کہ مداریوں کے ہاتھ نیا بچہ جمہورا لگا اور پھر امپائر اور اس کی انگلی کے اشارے لوگوں کو سڑکوں پر سمجھانے کے لیے لے آئے –
وطن عزیز ویسے بھی ہر طرح کے سیاسی و سماجی مال سے مالا مال ہے _ ایسے خوشامدی، چاپلوس بھی یہاں پائے جاتے ہیں جو بینرز لگا انتہائی با وقار ادارے کو سیاست کے کهیل میں گندا کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں، مگر جن کا شکریہ ادا کیا جا رہا تھا انہوں نے اپنا کام لے کر شکریہ کہہ دیا تو کہیں اور نکل پڑے _
قائداعظم کے پاکستان کے خواہشمند کیا نہیں جانتے کہ بانی پاکستان نوکر شاہی اور وردی والوں کی سیاست میں مداخلت کے انتہائی مخالف تهے، چندر بوس نامی ہندو نے جاپان کے ساته ملکر انڈین نیشنل آرمی قائم کی تو جناح نے چندر بوس کے اقدام کی سخت مذمت کی اور کہا وردی والوں کو سول حکومت کی حکم عدولی کا اختیار نہیں، اسٹاف کالج کوئٹہ میں جون 1948 کو خطاب میں بانی پاکستان نے کہا کہ وردی والوں کو دستور کا احترام کرنا چاہیے، اسٹیٹ بنک کی عمارت کے افتتاح کے موقع پر بهی قائداعظم نے فرمایا کہ بیوروکرسی خود کو ملک کا مالک نہیں خادم سمجهے، بانی پاکستان نے عوام کو ملک کا حقیقی مقتدر اعلی قرار دیا لیکن یہاں ہوتا کیا آیا ہے، طالع آزماؤں نے قائد اعظم کے پاکستان کے خواہشمندوں کی پکار پر دستور کو معطل کیا، دستور پاکستان کو محض چند صفحوں کی کتاب قرار دیا، اس نیک کام میں موجودہ حکمران اور اپوزیشن اور نام نہاد اپوزیشن کے لیڈران بهی وقتی مفاد کے لیے آمروں کے بغل بچہ بن گئے، ہر طالع آزما نے اپنے بغل بچوں کو ساته بٹھا کر قائداعظم کا پاکستان یقینی بنانے کے دعوے کیے، جب ماضی کے آمر ایسا دعوی کرتے تهے تو ان کے پیچهے کی دیوار پر لگی قائداعظم کی تصویر یہ سوال کر رہی ہوتی تھی کہ "ایسے پاکستان کا تصور تو میں نے(قائد اعظم محمد علی جناح ) پیش نہیں کیا تها جس میں قوم کے خادم ( سول ملٹری بیورکریسی) ملک کے راہبر/رہنما/پیشوا یا حکمران بن جائیں _
قائداعظم نے عوام کو ملک میں اقتدار کے حقیقی وارث قرار دیا، عوام کے منتخب نمائندے ہی اصل رہنما ہیں جنہوں نے ملک کے باگ ڈور سنبھالنی ہے، اگر کسی جگہ جمہوریت اکثریت کی وجہ سے آمریت/بادشاہت میں بدل گئی ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ حکمرانوں کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ کیا جائے، پارلیمنٹ میں عوام کے مسائل کے لیے پر زور آواز اٹهائی جائے، عوام کے پاس ووٹ کی طاقت ہے اگر کوئی حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترتی تو لوگ آئندہ الیکشن میں اس کا خود احتساب کر دیں گے، ضرورت اس چیز کی ہے کہ عوام میں ووٹ کی طاقت کا شعور اجاگر کیا جائے، اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں، میڈیا، سول سوسائٹی اور دیگر شراکت داروں کو ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر کوشش کرنی چاہیے _