کالم

پانامہ پیپرز کیس ۔ پھر کیا ہوا

جنوری 4, 2017 4 min

پانامہ پیپرز کیس ۔ پھر کیا ہوا

Reading Time: 4 minutes

عرصے کے بعد بارش نے اسلام آباد کے موسم کو خوشگوار بنایا۔ مگر ہمیں ایسی رتیں بھی سیاست اور عدالت کے درمیان لٹکتے معاملات کی خبر عوام تک پہنچانے میں گزارنا پڑتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر دو میں پینتیس کرسیاں ہیں مگر اڑھائی سو افراد ٹھنسے ہوئے ہوں تو سانس لینا بھی محال ہو جاتا ہے۔ شاہ محمود قریشی عدالت میں داخل ہوئے تو ابھی جج تشریف نہیں لائے تھے کہنے لگے کہ سال بدل گیا، وکیل بدل گئے، رت بدل رہی ہے اب بہت کچھ بدلے گا۔ بری طرح پھنسا ہونے کی وجہ سے ان کو کہہ نہ سکا کیا جس قبر کے آپ مجاور ہیں اس کا گدی نشین بھی بدلے گا؟
شیخ رشید نے آتے ہی کہا کہ بچہ پارٹی میرے لیے نشست خالی کرے۔ ان کی نظر ایک نوجوان رپورٹر پر پڑی تھی۔ جس کے بعد ایک دوست نے کہا کہ شیخ صاحب اس کو گود میں بٹھا لیں اور پھر شیخ رشید نے بھی جوابی جگت ماری۔ جج تشریف لائے تو عدالت میں دھکم پیل جاری تھی۔ عمران خان کچھ دیر بعد آئے اور جہانگیر ترین کے ہمراہ کھڑے ہو کر عدالتی کارروائی دیکھتے رہے ساتھ میں چیونگم بھی چباتے رہے۔
سماعت شروع ہوئی تو تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم نے ایوان میں جھوٹ بولا، دبئی فیکٹری سے کوئی رقم حاصل ہوئی اور نہ ہی جدہ میں مل لگانے کیلئے کوئی پیسے تھے، وکیل نے کہا کہ قطر کے شیخ کے کاروبار میں لگانے کیلئے بھی شریف خاندان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ تحریک انصا ف کے وکیل نے کہاکہ مریم نواز اپنے والد کے زیرکفالت تھی، رہی اور ہے، مریم لندن کے فلیٹوں کی مالک ہیں اس لیے وزیراعظم نے غلط بیانی کی۔ نعیم بخاری نے کہا کہ صحافیوں کے عالمی ادارے کی خبر مستند ہے۔ جسٹس گلزار نے پوچھا کہ پانامہ پیپرز کی قانونی حیثیت کیاہے؟۔وکیل نے جواب دیا کہ خبر دنیا بھرمیں شائع ہوئی کہیں سے تردید نہیں آئی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے تحریک انصاف کے وکیل سے پوچھاکہ کیا ان کا تمام تر انحصار وزیراعظم کی دو تقاریر پر ہے؟۔ کیا کسی دستاویز پر وزیراعظم کے دستخط بھی ہیں؟۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ وزیراعظم کی دستخط شدہ کوئی دستاویز موجود نہیں، بیرون ملک جائیداد منی لانڈرنگ کرکے بنائی گئی، یہ پاکستانیوں کی ملکیت ہے۔ تحریک انصاف کے وکیل نے کہاکہ وزیراعظم نے حسن اور حسین سے 74 کروڑ روپے وصول کرنے کا اعتراف کیا مگر اس پر ٹیکس نہیں دیا اس لیے بھی وہ نا اہل ہوتے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا اس لیے ان کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کرکے نااہل قرار دیا جائے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ایسی کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی کرسکتی ہے۔ وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ لندن کی عدالت نے مقدمے میں33 ملین ڈالر ادا کرنے کا فیصلہ دیا تھا، اس پر شریف خاندان نے عدالت میں اپنے چارفلیٹس ضمانت کے طور پر رکھے تھے، بعدازاں فلیٹ فروخت کیے بغیر لندن عدالت کے فیصلے کے مطابق رقم ادا کردی۔ وکیل نے کہاکہ شہباز شریف کو نوٹس جاری کرکے پوچھا جائے کہ 33ملین ڈالر کی رقم کیسے ادا کی؟۔جسٹس اعجاز افضل نے پوچھاکہ کیا غیر ملکی بینکوں سے قرض لینے پر پابندی ہے؟۔ وکیل نے کہاکہ یہ افراد عوامی عہدے رکھتے ہیں، انہوں نے کہاں سے پیسہ لاکر عدالتی فیصلے پر ادائیگی کی؟۔ وکیل نے کہاکہ یہ بھی منی لانڈرنگ کی گئی تھی۔ لندن کا فلیٹ سترہ سات مئی 1993کو پانچ لاکھ پچاسی ہزار پاﺅنڈز میں نیسکول کمپنی نے خریدا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھاکہ کیا نیسکول کے مالک حسین نواز تھے؟۔ نعیم بخاری نے کہاکہ یہی سب سے اہم اور خفیہ بات ہے۔ شریف خاندان دبئی، جدہ اور قطر کے شیخ کے پیسوںسے لندن جائیداد خریدنے کی کہانی سناتا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ شریف خاندان نے فلیٹس 2006میں خریدنے کا جواب جمع کرایاہے اگر یہ اس سے پہلے خریدے گئے ہیں تو آپ نے ثابت کرناہے، صرف اسی صورت میں آپ کا مقدمہ مضبوط ہوگا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ دوسری جانب شریف خاندان کو 2006میں لندن فلیٹوں کی خردیداری کی دستاویزات دکھانا ہونگی۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ فلیٹ سولہ اے 10جولائی 1995کو دس لاکھ 75ہزار پاﺅنڈ میں نیلسن کمپنی نے خریدا، یہ دستاویزات خود شریف خاندان نے پیش کی ہیں، تیسری جائیداد فلیٹ سترہ اے 23جولائی 1996کو دولاکھ 45ہزار پاﺅنڈ میں خریداگیا۔ وکیل نے کہاکہ اس پورے معاملے میں کہیں بھی رقم بنک کے ذریعے منتقل نہیں ہوئی، پانچ نومبر 2016کو پہلی بار قطر کے شیخ آئے ، وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کبھی قطر کے کاروبار کا ذکر نہیں کیا۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ دبئی فیکٹری کیلئے زمین 1974میں لیزپر لی گئی اور اس میں بنک سمیت تین فریق تھے، شریف خاندان اس فیکٹری کے بیچنے سے بارہ ملین درہم حاصل کرنے کی بات غلط بیانی کررہاہے کیونکہ فیکٹری بیچنے اس رقم ملی ہی نہیں۔ اگر ایسا ہوا بھی ہوتو بارہ ملین درہم دبئی سے جدہ کیسے گئے اس کا جواب نہیں دیاگیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے سوال پوچھا کہ دبئی، جدہ اور قطر کے قوانین کی اگر خلاف وزری ہوئی ہے تو اس پر پاکستان میں کارروائی اور سزا ہوسکتی ہے؟۔ وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ اگر بارہ ملین درہم بیس برس تک دبئی میں پڑے ہوئے تھے توپاکستان کیوں نہ لائے گئے؟
تین گھنٹے کی سماعت نے کھڑے کھڑے تھکا دیا تو ٹیک لگانے کیلئے سہارا بھی میسر نہ آیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل کو پہلی بار مخاطب کیا اور کہا کہ پہلی بار پنجاب میں وزیربننے سے لے کر آج تک نوازشریف جن عوامی عہدوں پر رہے ہیں ان کا دورانیہ اور تاریخیں عدالت میں پیش کریں، اسی طرح ان کے بیرون ملک رہنے کاعرصہ بھی بتائیں۔ عدالتی وقفے کے دوران تحریک انصاف کے رہنماﺅں کی سپریم کورٹ کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو ججوں کے علم میں آچکی تھی اس لیے سماعت کے اختتام پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ پریس کانفرنس کرنے کیلئے پورا ملک پڑا ہوا ہے، اور اگر کسی نے کیس پر تبصرہ کرناہے تو ججوں کانام لے کر یا ان کے ریمارکس کاحوالہ دے کر نہ کرے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ہم سوال پوچھتے ہیں اور آبزرویشن دیتے ہیں مگر یہ فیصلہ نہیں ہوتا۔ شیخ رشید اٹھ کر سامنے آئے اور کہا کہ میڈیا پر پابندی نہ لگائی جائے پورا ملک اس مقدمے کی کاروائی ٹی وی پر براہ راست دیکھنا چاہتاہے۔ عمران خان نے ججوں کو مخاطب کرکے کہاکہ وہ اپنی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم پریس کانفرنس کرنے پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ ن لیگ والے کہتے ہیں ثبوت موجود نہیں، ہم ججوں پر دباﺅ نہیں ڈال رہے۔ عمران خان نے کہاکہ اپوزیشن کا کام الزام لگانا ہوتا ہے ثبوت دینا نہیں۔ اس جملے پر عدالت میں نسوانی قہقہے گونج اٹھے۔ عدالت میں اس وقت ن لیگ کی انوشے رحمان، مریم اورنگزیب اور مائزہ حمید موجود تھیں۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ہم کسی تبصرے یا پریس کانفرنس سے متاثر نہیں ہوتے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے