سب کو سن رہے ہیں
Reading Time: 5 minutesسپریم کورٹ سے اے وحید مراد
ایک خوشگوار دن کی صبح سپریم کورٹ کے باہر اسی طرح کی بھیڑ لگی تھی جیسے گزشتہ تین دنوں کی بارش میں تھی۔ عدالت کی پارکنگ میں درجنوں ٹی وی چینلوں کی سیٹلائٹ وین کے اینٹینے بھی معمول کے مطابق اپنا منہ آسمان کی طرف کرکے آپ کی ٹی وی اسکرین تک تصویر اور آواز پہنچا رہے تھے۔ شیخ رشید سوا نو بجے پہنچے اور وہی بات دہرائی جو تین برسوں سے کہہ رہے ہیں۔
ساڑھے نو بجے عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں پانامہ پیپرز مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میاں شریف کی وراثت کی تقسیم والی دستاویز پیر کے روز پیش کروں گا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا آج کیوں نہیں؟ ٹی وی پر شریف خاندان کے افراد نے کہا کہ وراثت کی تقسیم کی دستاویز موجود ہے، ایسا ہے تو پیش کرنا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ وکیل نے کہا مجھے ہدایات ملی ہیں اس لیے پیر کے روز ہی پیش کر پاﺅں گا۔ جسٹس کھوسہ بولے، ٹھیک ہے عدالت کیا کرسکتی ہے۔
اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد روسٹرم پر آئے اور دلائل کا آغاز کیا۔ بولے اسحاق ڈار کے منی لانڈرنگ ریفرنس میں اعترافی بیان حلفی کا پس منظر جاننا ضروری ہے، پندرہ اکتوبر 1999 کو اسحاق ڈار کو گھر پر نظر بند کیا گیا، دباﺅ ڈالا گیا کہ وہ نوازشریف کے خلاف بولیں، پھر اٹک قلعے میں لے جایا گیا، چھ ماہ بعد 25 اپریل سنہ دوہزار کو منی لانڈرنگ کا اعتراف کرایا گیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا موجودہ حالات میں اسحاق ڈار کا اعترافی بیان حلفی کاغذ کا ٹکڑا ہے، جب تک عدالتی حکم نہیں آتا اور احتساب بیورو ہائیکورٹ کی جانب سے ختم کیے گئے مقدمے میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے فیصلہ حاصل نہیں کر لیتا اور کیس دوبارہ نہیں کھلتا اس بیان حلفی کی کوئی حیثیت نہیں۔ وکیل نے کہا ڈار سے بیان حلفی اپریل سنہ دوہزار میں لیا گیا اوروہ ستمبر دوہزار گیارہ تک فوجی حراست میں رہے۔فوجی حکام نے لکھے ہوئے بیان پر اسحاق ڈار سے دستخط کرائے تھے۔ پانامہ پیپرز کیس سے اسحاق ڈار کا تعلق نہیں، درخواست گزار نے صرف نوازشریف کا سمدھی ہونے پر ان کو فریق بنایا ہے۔ وکیل شاہدحامد نے کہا نومبر 1994 میں یہ تمام معاملات شروع ہوئے اور ایف آئی اے اسلام آباد نے دو مقدمہ درج کیا۔ اس کے علاوہ دو مقدمات حدیبیہ انجینئرنگ اور حدیبیہ پیپرزمل کے ڈائریکٹروں کے خلاف درج کیے گئے، ان ڈائریکٹرز میں میاں شریف، عباس شریف، حسین نواز، حمزہ، نواز شریف اور شہباز شریف شامل تھے۔ ان مقدمات کی بنیاد پر ریفرنس دائر کیے گئے اور 27مئی 1997کو فیصلہ آیا جس میں چالان ختم کرکے ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ان مقدمات کا حوالہ دے کر فیصلے کیوں پڑھ رہے ہیں جن میں اسحاق ڈار ملزم ہی نہیں تھے، اسحاق ڈار کابیان حلفی ان مقدمات سے متعلق نہیں ہے۔
وکیل شاہد حامد نے کہا اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس اور بیان حلفی کا پس منظر بتانے کیلئے ان مقدمات اور ریفرنس کا حوالہ دیا، اسحاق ڈار کا بیان حلفی محض کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اسحاق ڈار کا بیان ثبوت کا ٹکڑا تھا جسے استعمال نہیں کیا گیا، لاہور ہائی کورٹ نے مقدمہ اس بنیاد پر ختم کیا تھا کہ دیگر شریک ملزمان کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ وکیل نے کہا ننانوے میں مالی ٹرانزیکشن کو قانونی تحفظ حاصل تھامقدمہ نہیں بن سکتا تھا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا یہ قانون بناتے وقت نوازشریف وزیراعظم اور اسحاق ڈار وزیرخزانہ تھے۔ وکیل بولے اسحاق ڈار اس وقت رکن قومی اسمبلی بھی نہیں تھے۔ (تاہم بعد ازاں عدالتی عملے کی معاونت سے جسٹس آصف کھوسہ نے تصحیح کی کہ اسحاق ڈار 97 تا 99 نوازشریف حکومت میں کامرس اور سرمایہ کاری کے وزیر تھے)۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا مالی ٹرانزیکشن کے تحفظ کا قانون کیا بیرون ملک اکاﺅنٹس پر کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟ وہ تو صرف پاکستان کے اندر موجود اکاونٹس کیلئے تھا۔وکیل نے تصدیق کی کہ اس قانون کے تحت صرف اندرون ملک مالی ٹرانزیکشن کو تحفظ حاصل تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا اصل کیس کی جانب آئیں، درخواست گزار کے وکیل نے کہاتھا اسحاق ڈار بیان حلفی کیس فیصلے پر احتساب بیورو نے اپیل نہیں کی تھی اس لیے سپریم کورٹ چیئرمین نیب کے خلاف کارروائی کرے اور اپیل دائر کرنے کا حکم بھی دے، اس بارے میں اپنا موقف بتائیں۔ وکیل بولے، اسحاق ڈار نے ہمیشہ اس اعترافی بیان کی تردید کی ہے، حدیبیہ پیپرزمل ریفرنس میں الزام تھا کہ شریف خاندان نے غیر ملکی اکاﺅنٹس جعلی ناموں سے بنائے اور ڈالرز منتقل کیے اسحاق ڈار بھی شامل تھے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا شریک ملزم کو شامل تفتیش نہ کرانے پر کیس ختم ہوگیا اور ایک ارب بیس کروڑایسے ہی چلے گئے۔ وکیل نے کہا مقدمہ دو بنیادوں پر ختم کیا گیا تھا ایک وجہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان متعلقہ عدالت کے سامنے ریکارڈ نہ ہونا تھی۔جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا کیا اسحق ڈار کو پہلے وعدہ معاف گواہ بنایا گیا اور پھر اعترافی بیان لیا گیا؟۔ وکیل نے کہا ایسا ہی ہوا ہے۔ وکیل نے کہا یہ ریفرنس ہائیکورٹ نے تین دسمبر 2012 کو ختم کیا، دونوں ججوں نے ریفرنس ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا تاہم اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر ازسرنو تحقیقات کیلئے ان میں اختلاف تھا جس کے بعد ریفری جج نے گیارہ مارچ 2014 کو ازسرنو تحقیقات نہ کرنے کے فیصلہ دیا اور یہ معاملہ ختم ہوا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا یہ جاننا ضروری ہے کہ اسحاق ڈار کو معافی کب ملی، اگر معافی کے بعد بیان دیا تو قانونی پوزیشن مختلف ہوگی ، اگر اعترافی بیان پہلے کا ہے اور معافی بعد میں ملی تو مختلف صورتحال ہے، پہلی صورت میں وہ گواہ اور دوسری میں ملزم ہیں۔وکیل نے کہا میری احتساب بیورو کے ریکارڈ تک رسائی نہیں، اٹک قلعے میں زیرحراست شخص کے اعترافی بیان کی کیا حیثیت ہوگی؟۔ پرویزمشرف کے احتساب بیورو کو اسحاق ڈار کے خلاف کچھ نہیں مل سکا تھا۔
عدالت نے احتساب بیور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کو بلایا اور انہیں ہدایت کی کہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان اور معافی کی تمام دستاویزات کا ریکارڈ رفراہم کیا جائے، آگاہ کیا جائے کہ ڈار کی معافی مشروط تھی یا غیر مشروط۔ جسٹس کھوسہ نے کہا ہائیکورٹ کے مقدمہ ختم کرنے کے فیصلے سے ایک ارب 20 کروڑ ضائع ہوگئے، ہم یہ دیکھیں گے کہ کن وجوہات کو بنیاد بنا کر ہائیکورٹ نے اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر ازسرنو تحقیقات نہ کرنے کا فیصلہ دیا۔
وکیل نے کہا اسحاق ڈار جب سینٹر بنے تو ان کے خلاف اسی اعترافی بیان حلفی کی بنیاد پر نااہلی کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی جسے عدالت نے خارج کرکے فیصلہ حق میں دیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اس فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزار اسحاق ڈار کا بیان حلفی پیش ہی نہ کرسکا جس کی بنیاد پر مقدمہ خارج کیا جاتاہے۔ جسٹس کھوسہ بولے کیا یہ فرینڈلی فائر تھا جو کلین چٹ دلوانے کیلئے کیا گیا؟۔ عدالت میں جسٹس کھوسہ کے ریمارکس پر قہقہے بلند ہوئے تو وکیل بولے ہائیکورٹ سمیت ہر عدالت نے اسحاق ڈار کو کلین چٹ دی، ان کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس کھوسہ بولے کیا کبھی کسی عدالت نے منی لانڈرنگ کے اس کیس کو میرٹ پر دیکھا؟۔ ایک درخواست گزار عدالت جاتاہے اس کے پاس ریکارڈ ہی نہیں، عدالت اس بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیتی ہے تو اس سے کلین چٹ کیسے مل گئی؟۔ وکیل نے کہا کبھی نہ کبھی تو اس معاملے کو واضح طور پر ختم ہونا چاہیے۔ (عمران خان سمیت تحریک انصاف کے دیگر رہنما خوش ہوکرکھڑے ہوگئے، عدالت میں موجود آدھ درجن ٹی وی اینکرز بھی جذباتی ہوگئے) کیونکہ عدالتی وقت بھی ختم ہو رہا تھا۔ مگر جسٹس کھوسہ جانتے ہیں کہ فیصلے سے قبل سب کو کیسے خوش کیا جاتاہے، کرسی سے اٹھتے اٹھتے بولے، بہت سے لوگ بہت کچھ کہہ رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ عدالت بہت سست ہے، بتا دیتے ہیں کہ ہماری رفتار کم نہیں، ہم سب کو سن رہے ہیں، اپنا مائنڈ کلیئر کرنے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے سب کو تفصیل سے سنیں گے، ہمیں لوگوں کی خواہشات ڈکٹیٹ نہیں کرسکتیں۔