کالم

سیاسی مقدمے میں قانونی داﺅ

جنوری 31, 2017 8 min

سیاسی مقدمے میں قانونی داﺅ

Reading Time: 8 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
سیاسی ڈرامے کو قانون کا جامہ پہنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کے بعد جج بھی عمومی نوعیت کے سوالات اٹھا کر خوشیاں بانٹنے میں مصروف ہیں اس لیے جب دوسری جانب سے وکیل قانون کے مطابق بات کرتا ہے تو تھوڑی دیر سننے کے بعد پھر مزے لینے کیلئے بیان بازی کی جانب دوڑ پڑتے ہیں۔ کیا ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج اپنے فیصلے میں بھی اتنی ہی عامیانہ بات کر پائیں گے جو عدالت میں ہنسی مزاح یا مقدمے میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ  بتائے گا، فی الوقت آج کی کارروائی پڑھیں۔
پانچ رکنی بنچ کے سامنے احتساب بیورو نے اسحاق ڈار کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں اپیل دائر نہ کرنے کا مشاورتی ریکارڈ جمع کرایا، جسٹس گلزاراحمد نے پوچھا نیب کتنے مقدمات میں اپیل دائر نہیں کرتا؟۔ نیب کے وکیل نے جواب دیا بہت سے مقدمات میں جائزہ لینے کے بعد اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا یہ بہت بڑا معاملہ تھا اپیل نہ کرنا عجیب بات ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اپیل نہ کرنے پر نیب کا تفصیلی موقف بعد میں سنیں گے۔
عدالت نے وکیل سلمان راجا سے پوچھا حسن اور حسین کے تعلیمی دورانیے کے بارے میں بتائیں۔ وکیل نے کہا حسین نے 1993 میں برطانیہ کے لنکنز ان سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی جبکہ حسن نے لندن اسکول سے 1999 میں گریجویشن کی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا دبئی فیکٹری کے ذمے پندرہ ملین درہم کے قرضے کی ادائیگی کا بتائیں۔ وکیل نے کہا اس بارے میں وضاحت موجود نہیں، باقی تمام چیزیں واضح ہیں، تاہم دبئی فیکٹری بیچنے سے ملنے والے بارہ ملین درہم کو متنازع نہیں کہا گیا، وکیل نے کہا ممکن ہے 1978 سے 1980 کے درمیان یہ قرض ادا کر دیا گیا ہو۔ جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ طارق شفیع نے اس بارے میں کیوں کچھ نہیں بتایا؟۔ وکیل نے کہا طارق شفیع نمائندہ تھا کاروبار میاں شریف کا تھا وہی پندرہ ملین قرض ادائیگی کا درست طورپر بتاسکتے تھے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا جب میاں شریف دبئی میں نہیں تھے کاروبار کی دیکھ بھال کون کررہاتھا؟۔ وکیل نے کہا میاں شریف ہی نگرانی کرتے تھے اوران کا بہت بڑا کاروبارتھا، پاکستان میں بھی ان کے چھ کاروبار تھے اس کی تفصیل بھی عدالت میں بتاﺅںگا، دبئی فیکٹری کی مشینری کو 2001 میں حسین نواز نے میاں شریف کی خواہش پر دوبارہ خریدا، اس کو مکہ کے قریب عزیزیہ مل کے پلانٹ کے ساتھ لگایا۔ جسٹس کھوسہ نے پوچھا فیکٹری کی دوبارہ خریداری کا پہلے کیوں نہیں بتایا؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا وزیراعظم کی تقریر میں دبئی اور قطر کے کاروبار کا ذکر نہیںتھا، عدالتی کارروائی آگے بڑھنے سے قسطوں میں معلومات لائی جارہی ہیں، قطر کا خط پانچ نومبر کو آیا، جب معلوم تھا تو تقریرمیں وزیراعظم نے بتایا کیوں نہیں؟۔ وکیل نے کہا قطر کے شاہی خاندان کی وجہ سے حساس نوعیت کا معاملہ تھا اس لیے ان کی اجازت کے بعد معلومات عام کی گئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے دوبارہ پوچھا کہ وزیراعظم نے قطر کی سرمایہ کاری کے بارے میں پہلے کیوں نہیں بتایا؟۔ وکیل نے کہا یہ عدالت ٹرائل نہیں کررہی، اگر ٹرائل کرنا ہے تو کٹہرا لگائیں اور پوچھیں، اس مقدمے میں صرف دستاویزات کا جائزہ لیا جا رہاہے۔ جسٹس اعجاز نے پوچھا کیا حسین نواز قطر کی سرمایہ کاری اور اس سے لندن کے فلیٹوں کی خریداری سے لاعلم تھے؟ وکیل بولے حسین نواز کو معلوم تھا مگر معاملہ قطر کے شاہی خاندان سے متعلق تھا اس لیے نہیں بولے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کیا ابتدا میں سچ نہیں بولا گیا اور اب حصوں میں معاملہ سامنے لایا جا رہاہے؟۔ وکیل نے کہا وزیراعظم کی تقریر اور خطاب مکمل نہیں تھے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا پارلیمان کے ایک اہم عہدیدار نے ہمیں بہت ڈانٹا ہے کہ جج صاحب کو صفحہ نظر نہیں آیا، ہوسکتا ہے کوتاہی ہو گئی ہو، وکیل صاحب آپ وہ صفحہ دکھادیں۔وکیل سلمان راجا نے کہا ممکن ہے کہا ہو، مگر ہوسکتا ہے مخاطب آپ نہ ہوں، مجھے اس بات پر افسوس ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا وزیراعظم کی تقریرمیں قطر کی سرمایہ کاری کی بات نظر انداز ہوگئی تھی یا دانستہ طورپر ذکر نہیں کیاگیا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا پورے کیس میں قطر کی سرمایہ کاری اہم ہے مگر اس کا تقریر میں ذکر نہیں تھا۔ وکیل نے کہا وزیراعظم نے کہاتھا سرمایہ کاری کی گئی اس کا مطلب یہی سرمایہ کاری تھی، دیر اس لیے ہوئی کہ معاملہ قطر کے شاہی خاندان کاتھا۔ جسٹس گلزار نے پوچھا بارہ ملین کیسے آگے گئے، نظر نہیں آتے۔وکیل بولے کیا جو رقم بنک سے نہ جائے وہ نظر نہیں آئے گی؟ وکیل نے کہا عدالت ریکارڈ کو دیکھ لے،ٹرائل نہیں ہورہا، اگر کرنا ہے تو طارق شفیع کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھ لیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بارہ ملین بنک کے ذریعے کیوں منتقل نہ کیے؟۔ وکیل نے کہا رقم نقد لے جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، یہاںملین درہم اونٹوں پر لے جانے کی بات ہوئی۔ وکیل نے کہا 1980 میں دبئی میں ایک ہزار درہم کا نوٹ تھا ، اس کی نقل کاغذ پر اتار کرلایاہوں عدالت دیکھ لے۔ وکیل کی جانب سے سفید کاغذ پر چھاپے گئے نوٹ کی نقل دیکھ کر جسٹس عظمت سعید نے کہا آپ کو عدالت کو پیسے نہیں دینے چاہئیں، عدالت میں موجود لوگ اس جملے سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ وکیل نے کہا یہ میرے ہاتھ میں ’برادرز کرمازوف‘ ناول کی دو جلدیں ہیں ، یہ تین ہزار صفحات بنتے ہیں، دوملین درہم کی ایک قسط اتنی ہی رقم تھی جس کیلئے بریف کیس کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاآپ کہہ دیتے کہ کار کی ڈگی میں بھی لے گئے تھے۔ جسٹس عظمت نے کہا آگے بڑھیں، ہم کیوں صحرا میں سرابوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا یہ اپنی نوعیت کا منفرد مقدمہ ہے، دستاویزات موجود ہیں مگر کیا قانون کے مطابق کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی شہادت کو پرکھا جاسکتاہے؟۔
وکیل سلمان اکرم نے کہا میاں شریف بہت وسیع کاروبار کے مالک تھے، سب کے علم میں ہے جب 1989 میں بے نظیر حکومت نے کراچی پورٹ پر اتفاق فونڈری کیلئے خام مال لانے والا جوناتھن جہاز روکا گیا، عدالت نے اس پر فیصلہ بھی دیا تھا، صرف اس ایک معاملے میں شریف خاندان کو پچاس کروڑ کا نقصان ہواتھا، اس وقت یہ بہت بڑی رقم تھی، اگر دیکھا جائے تو 1993 میں لندن فلیٹوں کی کل مالیت سات کروڑ تھی۔ جسٹس گلزا رنے پوچھا شریف خاندان نے لندن کے فلیٹوں کا استعمال کب شروع کیا؟۔ وکیل بولے ترانوے میں جب حسین نواز برطانیہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا اس وقت ملکیت کس کی تھی؟۔ وکیل نے کہا نیسکول کمپنی مالک تھی قطر کے شیخ نے خریدی، حسین نوازفلیٹوں کے استعمال کا کرایہ دیتے رہے، خاندانی دوستی کی وجہ سے شیخ نے فلیٹ دیے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اتنی گہری دوستی تھی کہ تیرہ برس تک فلیٹس حسین نواز کے پاس رہے۔وکیل نے کہا عدالت مفروضوں کو نہ دیکھے، ریکارڈ موجود ہے فلیٹس 2006 میں حسین نواز کی ملکیت میں آئے، قطر کے شاہی خاندان کے پاس لندن میں بہت فلیٹ تھے، حسین نوازکو رہائش کیلئے فلیٹ دینا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ وکیل نے کہا رحمان ملک کی ستمبر 1998 میں نیسکول کمپنی کی ملکیت کے بارے میں رپورٹ ایک اور کمپنی کی وجہ سے تھی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کیا آپ بھی رحمان ملک کی رپورٹ پر اعتبار کرتے ہیں؟۔ اس پر عدالت میں ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔ وکیل بولے رحمان ملک کی رپورٹ پر بالکل اعتبار نہیں لیکن ریکارڈ پر یہ بات آئی تھی اس لیے پس منظر سے آگاہ کیا، عدالت اس مفروضے کو نہ دیکھے کہ ترانوے میں یہ فلیٹ شریف خاندان کے تھے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا حسین کو چاہیے تھا شیخ جاسم سے ملکیت کے بار ے میں پوچھ لیتے۔ وکیل بولے حسین کو معلوم ہے کہ فلیٹ شیخ حمد جاسم نے خریدے تھے۔
وکیل سلمان اکرم نے کہا لندن میں التوفیق کمپنی کی درخواست پر عدالت کے نوٹس جاری کرنے کی جانب آتاہوں۔ اس کمپنی کے ڈائریکٹر شیزی نقوی نے اپنا نیا بیان حلفی دیا ہے۔ شیزی نقوی کہتے ہیں کہ انہوں نے رحمان ملک کی رپورٹ پر اعتبار کرتے ہوئے لندن کی عدالت میں اپنا قرض واپس لینے کیلئے فلیٹوں کی منسلک کرنے کی درخواست دی تھی۔جسٹس عظمت نے کہا یہ محض نوٹس تھا اور عبوری طورپر صرف الزام پر جاری ہوا، ریکارڈ سے یہ بات واضح ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا اس الزام کے خاتمے کیلئے کیا ہوا؟۔ وکیل بولے عدالتی نوٹس بغیر کسی انکوائری کے جاری ہوا، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ شریف خاندان فلیٹوں کا مالک تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا آٹھ ملین ڈالر ادا ہوئے اور اس نوٹس پر کارروائی نہ ہوئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا التوفیق کمپنی سے قرض کونسی چیز گروی رکھ کر لیا گیا؟۔ وکیل نے کہا حدیبیہ مل پلانٹ گروی رکھ کر قرض لیا گیاتھا۔ وکیل نے کہا جس وقت لندن میں آٹھ ملین اداکیے گئے حسین نواز بھی حراست میں تھے صرف میاں شریف رائے ونڈ میں تھے، حسن نواز لندن میں تھے۔ جسٹس عظمت نے کہا واضح ہوتا ہے کہ التوفیق کو رقم شریف خاندان نے ادا نہیں کی۔
وکیل سلمان اکرم نے کہااب قانون کے مطابق اس مقدمے کو سننے پر بات کروں گا، وکیل کا کہنا تھا عدالتی فیصلوں میں طے ہوچکا ہے کہ تفتیش متعلقہ ادارے ہی کرسکتے ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا الیکشن قوانین میں گنجائش نہیں، ایف آئی اے اور نیب نے بھی کہہ دیا کہ ان کا دائرہ اختیار نہیں، اسی بنیاد پر سپریم کورٹ معاملے کو دیکھ رہی ہے اور تمام لوگوں نے کیس قابل سماعت ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ وکیل نے کہا اداروں کا اپنا کام نہ کرنا عدالت کو صرف یہ اختیار دیتاہے کہ ان کو حکم جاری کرے ان کا کام اپنے ہاتھ میں نہ لے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا معاملہ وزیراعظم کا ہے تو کیا کیاجائے، کیونکہ اداروں کے سربراہ وزیراعظم ہی لگاتاہے۔ وکیل بولے اداروں کے سربراہ اپوزیشن کی مشاورت سے لگائے جاتے ہیں، اگر وزیراعظم کسی ادارے کے سربراہ کو غیر قانونی طورپر لگاتاہے تو اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جاسکتاہے، اس کیس میں عدالت قانون کو دیکھے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا عدالتی فیصلے اس حد تک ہیں کہ متنازع نہ ہونے والی دستاویزات کا فیصلہ کیا جاسکتاہے، سپریم کورٹ ان فیصلوں سے پیچھے نہیں جاسکتی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا عدالت پیچھے نہیں جاسکتی مگرآگے بڑھ سکتی ہے۔ وکیل نے عدالت آگے ضرور بڑھے مگر قانون کے مطابق، صرف کیس جلدی ختم کرنے کیلئے نہیں، ایسا نہ ہوکہ’ ایک ہی جست نے کردیا قصہ تمام‘ والی بات ہوجائے۔ عدالت عوامی مفاد کے مقدمے میں کسی کو سزا سنا سکتی ہے اور نہ ہی فیصلے میں الزامات لگاکر چھوڑا جاسکتاہے۔ وکیل نے کہا درخواست گزارکہتاہے میرا کام الزام لگانا ہے ثابت کرنا نہیں، عدالت اس مقدمے میں ٹرائل نہیں کررہی بلکہ دستاویزات کا جائزہ لے رہی ہے۔ حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے سپریم کورٹ میں موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم کی تقریر امپرفیکٹ(نامکمل) تھی۔ اس کو پرفیکشن میں نہ دیکھاجائے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا آپ سب وکیل بہت اچھی انگریزی بولتے ہیں۔ پہلے وکیل سلمان اسلم بٹ نے وزیراعظم کی تقریر کو پولیٹیکل اسٹیٹمنٹ(سیاسی بیان) قرار دیاتھا۔ پھر مخدوم علی خان آئے تو وزیراعظم کی تقریر کو جنرالائز اسٹیٹمنٹ(عمومی بیان) کہہ دیا، اب آپ نے وزیراعظم کی تقریر کے بارے میں امپرفیکشن (نامکمل) کا تاثر دے رہے ہیں، آپ لوگوں کی انگریزی کی تعریف ضروری ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ کے ریمارکس پر عدالت میں بیٹھے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ حسین نواز نے پورا سچ نہیں بولا اور دانستہ کچھ چھپایا تو کیا نتائج ہونگے؟۔ وکیل نے کہا اس کے نتائج وزیراعظم پر کیسے پڑیںگے، عدالت حسین کے خلاف انکوائری کا حکم دے سکتی ہے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا فرض کریں حسین کہتاہے عدالت کو کچھ نہیں بتانا، کرلیں جو کرناہے پھر کیا ہوگا۔ وکیل بولے کیوں فرض کروں؟ ایسا جوا نہیں کھیلوں گا، جب معاملہ ہی میاں شریف اور شیخ جاسم کا ہے تو مجھ سے ساری معلومات دینے کی توقع کیوں کی جارہی ہے؟۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ممکن ہے میاں شریف نے لندن فلیٹس دوسروں کے نام پر خریدے ہوں۔ وکیل نے کہا ممکن تو بہت کچھ ہے مگر عدالت نے مفروضوں پر نہیں قانون پر فیصلہ کرنا ہوتاہے۔ قانون کے مطابق لکھے ہوئے کاغذ کی اہمیت ہے اور کمپنیوں کے سرٹیفیکیٹ قطر کے شیخ کی تحویل میں تھے۔جسٹس گلزار نے قطر کے شیخ کا پہلا خط پڑھتے ہوئے کہا کہ یہ سنی سنائی بات لگتی ہے، اس میں نہیں لکھا کہ میاں شریف نے شیخ حمد کے سامنے وراثت حسین نواز کو دینے کی وصیت کی، آخر یہ شیخ الفاظ کے استعمال میں اتنے کنجوس کیوں ہوتے ہیں؟وکیل بولے قطر کے شیخ کو بلائیں، کٹہرے میں کھڑا کریں اورپوچھ لیں۔( وکیل نے مختلف مواقع پر یہ بات دہرائی کیونکہ وہ جانتے ہیں یہ ٹرائل کورٹ نہیں اورقانون کے مطابق ایسا کرنے کی مجاز نہیں)۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ قطر کے خط میں یہ بالکل نہیں لکھا کہ وہاں کی سرمائے کاری کے منافع سے لندن کے فلیٹس لیے گئے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے پوچھا یہ بتایاجائے کہ کیا لندن فلیٹس میاں شریف کی سرمایہ کاری کے منافع سے خریدے گئے یا پھر میاں شریف کی وفات کے بعد مشترکہ وراثت سے خریداری کی گئی کیونکہ شریف خاندان کا دعوی 2006میں خریدنے کاہے، میاں شریف 2004میں وفات پائے اور شریف خاندان کے درمیان وراثت کی تقسیم 2009میں ہوئی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے