ججوں اور وکیلوں کا گٹھ جوڑ
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ سے اے وحید مراد
ؑلاہور کی ایک نجی ہاﺅسنگ سوسائٹی نے پلاٹوں کا اشتہار دیا، ہزاروں لوگوں نے کروڑوں روپے جمع کرا دیے مگر پلاٹ نہ ملے۔ کچھ نے قومی احتساب بیورو کا رخ کیا۔ مقدمہ چلا، سوسائٹی کے ایک رکن ارشد وڑائچ گرفتار ہوگئے۔ ایک کروڑ سے زائد کا فراڈ تھا، پلی بارگین ہوئی، چھپن لاکھ روپے ادا ہوئے اور بندہ چھوٹ گیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی ملزم کو بری کردیا۔ سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو نے ملزم کی بریت کے خلاف اپیل دائر کی۔ آج اس اپیل کی سماعت جسٹس دوست محمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ احتساب بیور نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر علی عمران نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کو بری کیا گیا مگر کیس میں حقائق درست طور پیش نہیں کیے گئے۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھا مقدمے میں پلی بارگین کی درخواست دکھائیں، ریکارڈ سے بتائیں کون سے حقائق درست نہیں، بتائیں کہاں لکھا ہے کہ ملزم نے رقم ادا نہیں کی؟۔ نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر (تیاری نہ ہونے کی وجہ سے) کاغذات کے صفحات آگے پیچھے کرتے رہے تو جج صاحب غصے میں آگئے، بولے جس طریقے سے نیب کو چلایا جا رہا ہے پریشانی کا باعث ہے، مقدمہ ججوں اور وکیلوں نے مل کر چلا نا ہوتاہے تاکہ فیصلہ کیا جاسکے، آج کل وکیلوں کا کام بھی ججوں کو کرنا پڑ رہا ہے، ہم کیوں سرکاری وکیلوں کا کام کریں؟۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا عدالتیں کب تک سرکار اور نیب کے وکیلوں کی طرف سے بھی کام کریں گی، یہ ججوں کا قصور ہے کہ وکیلوں سے نرم رویہ اختیار کرتے ہیں، یہ ہماری غلطی ہے کہ بار(وکیلوں) سے معذرت کرتے ہیں، سرکار کے وکیل عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتے ہیں، وکیل تیاری کرکے نہیں آتے اور مقدمات کو ملتوی کرنے کی درخواستیں کرتے رہتے ہیں، جج مان لیتے ہیں اس لیے سپریم کورٹ میں بھی ہزاروں کیس التواء کا شکار ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہا عام آدمی کے وکیل کی تیاری نہ ہونے سے ایک شخص یا کمپنی کا نقصان ہوتاہے اور وہ اسی کو جواب دہ ہے مگر سرکاری وکیل بائیس کروڑ لوگوں کو جواب دہ ہے کیونکہ ٹیکس سے تنخواہ لیتا ہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا وکیل صاحب ، آپ کی تیاری نہیں ایسی صورتحال میں کیا کریں جب آپ نے اپیل کے ساتھ متعلقہ دستاویزات ہی منسلک نہیں کیں، سپریم کورٹ کے قواعد میں ہے کہ ریکارڈ شروع میں ہی جمع کرایا جاتا ہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر بولے عدالت جیسے مناسب سمجھتی ہے کرے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا نیب کو اپیل دائر کرنے سے قبل اپنے ادارے میں ہی وکیلوں سے مشاورت کرنی چاہیے تھی، بتائیں نیب میں کتنے پراسیکیوٹر ہیں اور پراسیکیوٹر جنرل کی تنخواہ کیا ہے؟۔ خصوصی پراسیکیوٹرنے بتایا کہ اسلام آباد میں تین خصوصی پراسیکیوٹر ہیں جو سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہیں، پراسیکیوٹر جنرل کی تنخواہ کا علم نہیں۔ جسٹس دوست نے ہنستے ہوئے پوچھا کچھ تو بتا دیں ہماری تسلی کیلئے ہی سہی۔ عدالت میں بیٹھے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تنخواہ سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہے۔( مراعات ملا کر یہ تقریبا چھ لاکھ روپے سے زیادہ ہے)۔ جسٹس دوست محمد نے کہا تنخواہ آپ ٹیکس لیتے ہیں، اور اب حکومت نے بچہ پیدا ہونے پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے، بچے کو چومتے بعد میں ہیں پہلے میونسپل کمیٹی جا کر پیدائش کا اندراج کرنا پڑتا ہے، مردہ دفنانے پر بھی ٹیکس ہے، میونسپل کمیٹی جاتے ہیں کہ میرا عزیز مرگیا ہے میں غم میں ہوں مگر خوشی کے مارے ٹیکس دینے آیاہوں۔ جسٹس دوست محمد مزید بولے ٹیکسوں کا جال وسیع کیا جا رہا ہے، ایک ہی چیز پر چار بار بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے، 1982 سے ٹیکس دے رہاہوں، ٹیکس کٹی رقم سے مکان بنانے کیلئے خریدے جانے والے سامان پر بھی ٹیکس دینا پڑتاہے اور پھر بنگلہ بنا کر بیچا تو اس پر بھی ٹیکس دیا، گدھا گاڑی والا مزدور بھی ٹیکس دیتا ہے۔ احتساب بیور و کے وکیل خاموش کھڑے سنتے رہے، پھر گزارش کی کہ تیاری کرکے آنے کیلئے مہلت دی جائے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا چلیں اس التواء کو آخری سمجھ لیں اور آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کرکے آئیں۔