شریف بھی کمیشن بننے کے خلاف
Reading Time: 8 minutesسپریم کورٹ سے اے وحید مراد
پانامہ پیپرز کیس میں شریف خاندان کے وکیلوں کے دلائل مکمل ہو گئے ہیں۔ اب تفتیشی اداروں کے سربراہوں کی باری آگئی ہے۔ مقدمہ دراصل جہاں سے شروع ہونا تھا وہیں آن پہنچا ہے۔ سوال وہی ہے اس ملک کے ادارے اپنا کام کیوں نہیں کررہے؟۔اس پر ججوں اور وکیل میں طویل بحث ہوئی، اس کی تفصیل پڑھیں۔
پانچ رکنی بنچ کے سامنے حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔ وکیل نے کہا منروا کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کی دستاویزات حسین نواز کی جانب سے جمع کرائی ہیں، ساڑھے چھ ہزار پاﺅنڈ ادائیگی کی رسیدیں بھی موجود ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا جاننا یہ ہے کہ نیلسن اور نیسکول کے ڈائریکٹرکون تھے۔ وکیل نے کہا حسین نواز نے منروا کمپنی کی خدمات لیں، کمپنی نے ڈائریکٹرز نامزد کیے، مالک حسین نواز ہی ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا معاملہ ان دستاویزات کا ہے جن سے حسین نواز کا فلیٹوں سے براہ راست کنکشن ملے۔ وکیل نے کہا جنوری 2006میں فلیٹوں کی ملکیت حسین کو ملی، فروری میں ٹرسٹ ڈیڈ بنائی جس کے تحت مریم کو سرٹیفیکیٹ منتقل ہوئے،وکیل نے کہا جولائی دوہزار چھ میں قانون تبدیل ہوا تو سرٹیفیکیٹ منسوخ کرکے رجسٹرڈ شیئرز ملے جو منروا کمپنی کے نام جاری ہوئے۔وکیل کاکہناتھا جولائی دوہزار چھ سے لے کر جون 2014 تک شیئرز منروا کمپنی کے پاس رہے اس کے بعد حسین نواز نے ٹرسٹی سروس کمپنی کی خدمات لیں۔ جسٹس اعجازافضل نے پوچھا جب بیرئیر سرٹیفیکیٹ مریم نواز کے پاس تھی حیثیت کیا تھی؟ کیا مریم کو موزیک فونسیکا نے اسی وجہ سے مالک لکھا؟۔ وکیل نے کہا مریم کے پاس سرٹیفیکیٹ بطور ٹرسٹی رہے، موزیک فونسیکا کے مریم کو مالک بتانے کی منروا کمپنی کی دستاویز جعل سازی سے تیار کی گئی ، کمپنی خود نہیں مان رہی کہ اس نے ایسی کوئی دستاویز جاری کی، مریم نے بھی اپنے دستخطوں کو جعلی قراردیاہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا اسی بات میں کہیں پوری کہانی پڑی ہوئی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اس نکتے کو سمجھ گئے ہیں، آگے بڑھیں، جس کسی کو اس پر اعتراض ہوگا ثبوت لے کر آئے گا۔ وکیل بولے، اگر مریم والد کے زیرکفالت ثابت نہ ہوں تو اس بات کی اہمیت ہی نہیں کہ فلیٹوں کا مالک بھائی ہے یا بہن۔ دوسری جانب یہ بھی ثابت ہے کہ مریم نواز فلیٹوں کی مالک نہیں اگر وہ زیرکفالت ثابت ہوتب بھی فرق نہیں پڑتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھاکیا جولائی 2006میں سرٹیفیکیٹ منسوخ ہوئے تو شیئرز کس نے رجسٹرڈ کرائے؟ کیا مریم نے ایسا کیا؟۔ وکیل بولے، قانون بدلا تو شیئرز رجسٹرڈ کرانا تھے، حسین یا مریم میں سے کسی نے کرائے ہونگے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آگے بڑھیں۔
وکیل نے کہااب قانونی حوالوں اور سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں کی جانب آتاہوں، عدالت معاملے پر کمیشن تشکیل نہیں دے سکتی، قانون میں اس کی گنجائش نہیں، عوامی مفاد کے مقدمے میں ٹرائل نہیں کرسکتی، متعلقہ اداروں کو ہی ان کا کام کرنے دیاجائے، اصغر خان کیس کی مثال موجود ہے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا سپریم کورٹ کمیشن کیوں تشکیل نہیں دے سکتی؟وکیل نے کہا اس سے آئین کے مطابق شفاف ٹرائل متاثر ہوسکتا ہے، اگر عدالت خود سے کمیشن بنانے کا فیصلہ کرے گی تو پھر انکوائری کرنے والے متعلقہ ادارے اس کی رائے سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ کمیشن کسی کوالزام تو دے سکتاہے مگر مجرم قرارنہیں دے سکتا، اگر سپریم کورٹ کے جج کمیشن میں بیٹھ کر کسی کو ملزم قراردیں گے تو پھر نیچے عدالتیں اور تحقیقاتی ادارے اس کی رائے سے متاثر ہوکرفیصلہ دیں گے، کمیشن دوطرح کے ہوتے ہیں ایک جو صرف معلومات اکٹھا کرے اور دوسرا جو ایسے شواہد ڈھونڈے جن کی بنیاد پر ملزم کے خلاف ٹرائل ہو، اس لیے سپریم کورٹ اس مقدمے میں کمیشن تشکیل نہیں دے سکتی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا یہ موقع بعد میں آئے گا،دلائل مکمل ہونے کے بعد ہی فیصلہ کرتے وقت اس معاملے کو دیکھیں گے، ارسلان افتخارکیس میں سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ معاملہ متعلقہ ادارے کو ہی بھیجا جائے۔ وکیل نے کہا یہ بھی دیکھنا ہوگا کیا حسین نواز کے خلاف پہلے سے کسی ادارے کے پاس کوئی شکایت یا انکوائری موجود ہے،اگر ایسا ہے اور ادارے اس پر کارروائی نہیں کر رہے تو سپریم کورٹ ان کو ہدایت کر سکتی ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا جب درخواست گزار کہے اس کے پاس کچھ نہیں اور دوسرا فریق کہے جو کچھ ہے شیخ جاسم اور شیخ حمد نے دیا، تو دونوں کے موقف میں فرق کیاہے؟ اب عدالت کے پاس کیا بچتا ہے؟۔ جسٹس عظمت نے کہا اگر ہم حسین نواز کے موقف کو تسلیم نہ کریں تو کس کے موقف کو مانیں؟۔ وکیل نے کہا یہی سوال ہے کیا عدالت درخواست گزار کے موقف کو مان سکتی ہے؟۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اسی وجہ سے جوئے کا لفظ استعمال کیاتھا۔ وکیل نے کہا نہیں، یہ جوا نہیں ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا ایک درخواست مریم نواز کے فلیٹوں کے مالک ہونے کی آئی ہے، دوسری سراج الحق کی کرپشن کی تحقیقات کیلئے تھی ، اب وہ بھی صرف وزیراعظم کی نااہلی تک آگئے ہیں، مطلب یہ ہواکہ سیاسی مخالفت کی اہمیت ہے، کرپشن اہمیت نہیں رکھتی، جسٹس عظمت نے کہا ہم نے اصولوں کو دیکھنا ہے، وزیراعظم کو نہیں دیکھ رہے، وہ آتے جاتے ہیں، ہم سب آتے جاتے ہیں، ججوں نے بھی جانا ہے مگر قانون کو دیکھنا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا اسی وجہ سے مقدمے کو اتنی تفصیل سے سن رہے ہیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا درخواست گزار کچھ لے کر آیا ہے نہ دوسری جانب سے جواب مطمئن کرنے والاہے، کیا کریں۔ جسٹس عظمت سعید نے برجستہ کہا جاکر راول ڈیم میں مچھلیاں پکڑیں۔ جسٹس عظمت نے کہا عدالت آنے والوں نے چوانی کا بھی کام نہیں کیا، کوشش کرتے تو بہت کچھ لے کر عدالت آسکتے تھے، بس ہے، اب مزید مفت قانونی معاونت فراہم نہیں کرسکتا۔ ( اس بات پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے)۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا اربوں روپے کامعاملہ تھا مگر کہتے ہیں کوئی دستاویز نہیں۔ وکیل بولے اسی وجہ سے کہتا ہوں قانون کے مطابق معاملے کو دیکھیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے پوچھا کیا یہ سٹریٹیجی (منصوبہ بندی کے تحت )ہے؟ وکیل بولے، نہیں ایسا نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز نے کہا جوا بہتر لفظ تھا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا جوا کسی کے بھی حق میں جاسکتاہے اس لیے کہا تھا،اب سٹرٹیجی بہتر لفظ ہے۔ وکیل نے کہا سپریم کورٹ نے جو اصول طے کیے ہیں وہ ہلائے نہیں جاسکتے، عوامی مفاد کے مقدمے میں اپیل کا حق نہیں ہوتا عدالت اس پہلو کو بھی مدنظر رکھے ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا یہی مسئلہ ہے کہ عوامی مفاد کے مقدمے میں فیصلے پر نظرثانی میں دائرہ اختیار محدود ہوتاہے۔
عدالت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ ہوا جس کے بعد سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں اور عالمی عدالتوں کے فیصلوں سے مثالیں پیش کی جانے لگیں۔
وکیل نے کہا، سپریم کورٹ نے میمو کمیشن بھی بنایا تھا اور اس میں غیر معمولی اصول وضع کیے گئے تھے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے کرپشن معاملے پر فیصلہ(ڈیکلریشن) دیا، اس کیس میںبھی درخواست گزار یہی استدعا لے کر آیاہے۔ وکیل نے کہا اصغر خان کیس میں حقائق تسلیم شدہ تھے، اعترافی بیان سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے تھے اس لیے فیصلہ دیا گیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اگر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ فلیٹوں کی ملکیت کی وضاحت دیانت دارانہ نہیں تو کیا ہو گا؟۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا بتایا تو یہی ہے کہ قطر میں کاروبار تھا مگر کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔وکیل نے کہا الزامات شریف خاندان پر عمومی نوعیت کے ہیں، کسی ایک شخص کے خلاف فیصلہ کیسے دیا جاسکتا ہے؟
جسٹس آصف کھوسہ نے کہادادا دنیا میں نہیں رہے، جس وقت فلیٹ لینے کا الزام ہے بچے کماﺅ پوت نہیں تھے، اہلیہ خاتون خانہ ہیں ، پھرایک ہی فرد بچتا ہے۔ وکیل نے مداخلت کرکے کچھ کہنے کی کوشش کی تو جسٹس کھوسہ بولے،ہم ممکنات کی بات کر رہے ہیں۔ وکیل نے کہا اس کا نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ حسین کو فلیٹ اس لیے ملے کہ وزیراعظم نے کوئی غلط کام کیا تھا۔جسٹس کھوسہ نے کہا فلیٹس خریداری کے بارے میں وزریراعظم کی تقریر اور ان کے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے۔
وکیل نے امریکی عدالتوں کے فیصلوں کی مثال دی تو جسٹس آصف کھوسہ بولے، وہاں تفتیش کا ایک ایسا ادارہ بھی ہے جو حکومت کے ماتحت نہیں، کیونکہ حکومت کے کسی اعلی عہدیدار پر الزام لگ جائے تو عدالت اس غیر جانبدار ادارے سے ہی تفتیش کراتی ہے۔یہاں تو حالت یہ ہے کہ اداروں نے خود لکھ کردیاہے وہ پانامہ پیپرز معاملے کی تحقیقات کا اختیار نہیں رکھتے، پھر یہ عدالت خود کیس نہ سنے توکیاکرے۔ وکیل بولے، کوئی تحقیقاتی ادارہ یہ نہیں کہہ سکتا، اگر کہے تو عدالت ہدایات جاری کرسکتی ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں کہ اداروں نے ایسا کیا، حدیبیہ پیپرزمل کیس میں ہائیکورٹ کی جانب سے مقدمہ ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف نیب نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی، یہاں ہمیں وجوہات بتائی گئی ہیں، وہ پڑھیں ہیں ہمیں بالکل بھی اطمینان نہیں ہوا۔ وکیل نے کہا،اگر کوئی ادارہ کام نہ کررہاہوتو سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے اس کو ہدایت کرے، صرف یہ بات مدنظر رکھی جائے کہ زیادہ آگے نہ چلے جائیں کیونکہ یہ معاملہ انہی اداروں سے ہوتا ہوا دوبارہ سپریم کورٹ آسکتا ہے، سپریم کورٹ خود سے کسی ادارے کو انکوائری شروع کرنے کا نہ کہے، اداروں کو فیصلہ کرنے دے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ادارے کام بھی تو کریں، برطانوی وزیراعظم پاکستان آئے توکسی نے سوال کیاکہ آپ وہ ہمارے فلاں فلاں بھائی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ تو برطانوی وزیراعظم نے جواب دیا، یہ میراکام نہیں، ہمارے ادارے موجود ہیں، آپ اسکاٹ لینڈ یارڈ سے رابطہ کریں۔جسٹس کھوسہ نے وکیل سلمان راجاکو مخاطب کرتے ہوئے کہا، جو آ پ کہہ رہے ہیں اس کامطلب ہے کہ مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو۔ اس پر قہقہہ بلند ہوا۔ ( میں نے اپنے نوٹس میں یہ جملہ لکھا تو قریب کھڑے دوست رپورٹر نے پوچھا یہ کیا لکھاہے، میرا جواب تھا’مگس‘۔ بولے یہ کیا ہوتاہے)۔ یہ پورا شعر اور اس کی تشریح آپ میری فیس بک پر ملاحظہ فرمائیں۔
جسٹس اعجازافضل نے کہا ، ہم کوئی ایسا عالمی اصول وضع نہیں کرسکتے جو حالات و واقعات سے ماورا ہوکر ہر مقدمے پر لاگو کیا جاسکے، ہرکیس کے اپنے حالات ہوتے ہیں، ہرمقدمے کو اس کے حالات و واقعات کے تناظر میں الگ سے دیکھا اورپرکھاجاتاہے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا، وکیل صاحب، یہ تو نہیں کہیں گے کہ تفصیل سے سنانہیں گیا، سماعت کی شفافیت پر تو کوئی سوال نہیں اٹھے گا؟۔وکیل بولے، یہ تاریخی نوعیت کی سماعت ہے، بہت تفصیل اور سکون سے سنا جارہاہے، بلکہ عدالت کے بعد شام کو نتائج بھی اخد کیے جاتے ہیں، ٹی وی پر ہمارے میڈیا کے دوست ہر رات فیصلے بھی جاری کرتے ہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا آپ تو ان ٹی وی کی سماعتوں اور فیصلوں کا حصہ نہیں بنتے ہوں گے یا اس سے متاثر تو نہیں ہیں؟۔سلمان راجا بولے، جب سے وکیل مقرر ہوا ہوں ٹی وی ٹاک شو میں نہیں گیا۔
وکیل نے کہا ، عوامی مفاد کے مقدمے میںسپریم کورٹ کوئی ایسی رائے نہیں دے سکتی جس میں حقائق یا شواہد نہ دیکھے ہوں اور دوسری جانب یہ کام متعلقہ اداروں کاہے۔جسٹس کھوسہ نے کہا، اسی وجہ سے غیر معمولی احتیاط کررہے ہیں۔وکیل بولے، فیصلے کے خلاف اپیل کاحق بھی نہیں، حالانکہ ابلیس کو بھی ایک بار وضاحت کا موقع دیا گیا تھا۔ جسٹس کھوسہ نے جواب دیا، وہ شریعت کے قانون میں ہے۔ وکیل نے کہا، قانون کے مطابق کوئی ایسی انکوائری نہیں کی جاسکتی جیسے مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں( یہ میرا مادر پدر آزاد ترجمہ ہے)۔ جسٹس کھوسہ نے کہا، ساتھی جج پہلے ہی راول ڈیم کا ذکر کرچکے ہیں، ہم نے ابھی تک ایسی کوئی انکوائری نہیں کی۔
اس کے بعد وکیل نے عالمی عدالت کے فیصلوں کے حوالے دیے ، کہا کہ عالمی ثالثی عدالتوں اور ٹریبونل نے اس طرح کے معاملات میں کیا فیصلے دیے۔تو جسٹس آصف کھوسہ نے ان پر اپنی رائے دی، دوسری جانب جسٹس عظمت نے اس پر جوابی رائے دی۔ دونوں ججوں کے ایک دوسرے پر میزائل جاری تھے کہ ان کے درمیان میں بیٹھے جج اعجازافضل نے پہلے دائیں جانب جھک کر جسٹس عظمت سعید کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ، پھر بائیں طرف لڑھک کر بنچ کے سربراہ جسٹس کھوسہ سے کھسر پھسر کرکے ثالثی عدالت کاکام کیا۔ تب معاملات آگے بڑھے۔
وکیل سلمان راجا نے کہا، مجھے بتایا گیا ہے کہ درخواست گزار مزید دستاویزات جمع کرارہاہے۔ جسٹس عظمت بولے، کیا یہ کوئی سازش ہے کہ کیس ختم ہی نہ ہو؟۔جسٹس کھوسہ نے کہا، معلومات فراہمی/حصول کے حق کا ذکر کیا گیاہے، بتانا چاہتاہوں کہ یہ قانون معلومات تک رسائی کاہے نہ کہ معلومات فراہمی کا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا، ہم نہیں کہہ رہے کہ معلومات گھڑیں یا اخذ کریں، یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ان معلومات تک عدالت کو رسائی دیں گے جو آپ کے پاس ہیں۔ اس پر عدالت میں ہنسی پھوٹ پڑی۔ جسٹس اعجاز نے مزید کہا، تمام قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مقدمے کے ہرپہلو کو دیکھیں گے۔
وکیل نے مقدمات کے فیصلوں کے حوالوں کی ایک اور کتاب عدالت کے حوالے کی تو جسٹس کھوسہ بولے، ہمارے پاس بہت مواد اکٹھا ہوگیاہے،مزید حوالے بعد میں کسی اور موقع پر دیدیں۔ جسٹس عظمت نے کہا، دیدیں ہم وعدہ نہیں کرتے کہ پڑھیں گے ۔ ( ایک بار پھر مسکراہٹیں اور ہنسی)۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا، مسئلہ یہ ہے حسین نواز عام شہری ہیں، ان کے بارے میں معلومات تک رسائی کے قانون کا اطلاق بھی دیکھناہوگا۔ سلمان راجا کے دلائل مکمل ہوئے تو عدالت نے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر چیئرمین نیب اور چیئرمین ایف بی آر پیش ہوں۔ دونوں یہ بتائیں کہ پانامہ پیپرز سامنے آنے کے بعد کیا کارروائی کی؟۔ چیئرمین نیب حدیبیہ پیپرز مل کیس کاریکارڈ بھی ساتھ لائیں اور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے پر وضاحت دیں۔ جسٹس عظمت سعید کی طبیعت ناسازی کی وجہ سے آئندہ ہفتے سماعت منگل سے جمعرات تک ہوگی۔