دوسری شادی کی سزا
Reading Time: 3 minutesشادی کا لڈو جو کھائے پچھتائے جو نہ کھائے پچھتائے کا مقولہ تو سنا تھا لیکن دوسری شادی کا لڈو کھانے کی کہانی سپریم کورٹ میں سنی تو معلومات میں اور بھی اضافہ ہوا۔ دوسری شادی کرکے ایک ماہ جیل کی سزا پانے والا صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازیخان کے علاقہ تونسہ شریف کا رہائشی ملزم اشتیاق احمد فیملی کورٹ کی سزا سے بچنے کی کوشش میں ہائیکورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ آ پہنچا لیکن جان کو امان نہ مل سکی البتہ وکیل صاحب کی فیس کھری ہوگئی کیونکہ اس نے بڑی تیاری کے ساتھ 45 منٹ تک دلائل دیئے جس پر اسے جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے داد بھی دیدی، دوران سماعت کمرہ عدالت کشت زعفران بنا رہا، نائب قاصدوں سمیت وکلاء صحافیوں اور سائلین نے زندگی کی دلچسپ ترین سماعت سنی، کیس کی سماعت کا اغاز ہوا تو جسٹس دوست محمد خان کا ملزم کی صحت دیکھتے ہوئے کہنا تھا کہ دوسری شادی سے لطف اٹھایا ہے اگر ایک ماہ جیل میں گذار لیتے تو نئی نویلی دلہن سے دور رہ کر ملزم کی صحت اچھی ہو جاتی ۔ ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا جب 2012 میں ملزم نے شادی کی تو اس وقت بلدیاتی نظام موجود نہیں تھا اس لئے اس نظام میں موجود قوانین کے تحت سز انہیں دی جاسکتی، وکیل آفتاب کھوکھر کا کہنا تھا کہ بیوی بھی عمرقید ہوتی ہے۔ ان کے موکل کو دوسری شادی کر کے دو بار عمرقید ہو چکی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ غیرشرعی بات نہ کریں” بیوی عمرقید نہیں بلکہ اللہ کی نعمت ہوتی ہے”۔ اس موقع پر بینچ کے سربراہ جسٹس دوست محمد خان نے روایتی دھیمے لہجے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وقتی طور پر کسی فورم کا موجود نہ ہونا کسی شخص کو آزادی نہیں دیتا کہ وہ پہلی بیوی سے اجازت لئے بغیر دوسری شادی کر لے۔ سب سے بڑی خرابی ہی دوسری شادی کرنا ہے۔ ذہنی طور پر تندرست آدمی ایسا نہیں کر سکتا۔ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے وقت آبادی 7 کروڑ تھی جبکہ مشرقی پاکستان کی آبادی 5 کروڑ تھی۔ اب بنگلہ دیش کی آبادی 14 کروڑ ہم 20 کروڑ سے تجاوز کر چکے ہیں۔ حالانکہ بنگلہ دیش والے مچھلی اور ناریل ہم سے زیادہ کھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے مختلف اقدامات کئے۔ سب سے بہترین اقدام یہ کیا گیا کہ امام مسجد کی تنخواہ مقرر کر دی گئی اور قوم کو بچے دو ہی اچھے کی تعلیم دی گئی۔ چین میں ایک بچہ، یورپ میں دو، بھارت میں 3 یا 4 کا قانون بنایا گیا لیکن پاکستان میں کہا جاتا ہے ‘ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار’ ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم فیملی آرڈیننس لانے کے وقت ملک بھر میں مولوی صاحبان نے سابق صدر ایوب خان کی سخت مخالف کی۔ لیکن انہوں نے کسی نہ کسی طرح یہ قانون نافذ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہمارے ملک کے دیہاتوں میں امام کی بات کو ایسا سمجھا جاتا تھا کہ امام صاحب نے جو فرما دیا وہ قرآن پاک میں لکھا ہوا ہے۔ اسی لئے بنگلہ دیش نے اس معاشرتی پہلو سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ عدالتی استفسار پر ملزم نے بتایا کہ ان کا پہلی بیوی سے ایک بچہ ہے اور اس کی ماہانہ آمدن 12 ہزار روپے ہے۔ پہلی بیوی گھر چھوڑ کر جا چکی ہے تاہم وہ اسے اخراجات دے رہا ہے اور طلاق بھی نہیں دی۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ ملزم نے دوسری شادی پر ولیمہ تو کیا ہو گا۔ اس پر کتنا خرچ کیا۔ دوسری بیوی کو سونا اور زیورات بھی دیئے ہوں گے۔ کیا اچھا نہ ہوتا کہ وہ دونوں بیویوں کو ایک ہی گھر میں رکھتا۔ جب میلے میں جاتے ہیں تو 20 ، 25 منٹ کا سفر بھی کرنا پڑتا ہے اور کچھ خرچ بھی کرنا پڑتا ہے۔ اچھی بات ہوتی کہ اگر گھریلو اختلافات گھر میں ہی حل کر لئے جاتے۔ عدالتوں میں نہ آنا پڑتا۔ جسٹس دوست محمد خان نے سوال کیا کہ 12 ہزار ماہانہ کمانے والے کو دوسرا رشتہ کیسے ملا؟۔ وکیل نے کہا کہ ملزم کی شرافت کی وجہ سے اسے دوسرا رشتہ مل گیا۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ اتنی شرافت تھی تو دوسری شادی ہی نہ کرتا، ملزم نے مقامی حکومتوں کے قانون پر عمل نہیں کیا۔ اس لئے ایک ماہ جیل میں گزار لیں گے تو ان کی صحت کی اچھی ہو جائے گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کی طرف سے 45 منٹ تک مسلسل دلائل دینے پر کہا کہ آپ نے کافی محنت کی ہے جس پر آپ کی ستائش کرتے ہیں۔ تاہم عدالت نے سزا ختم کرنے کی درخواست خارج کر دی۔
Array