کالم

پچیس برس کی کشمکش (دوسرا حصہ)

مارچ 13, 2017 10 min

پچیس برس کی کشمکش (دوسرا حصہ)

Reading Time: 10 minutes

4 مارچ کو سیک سیمینار میں شرکت کی غرض سے پی سی کراچی کے زیور ہال میں داخل ہوا تو فیض اللہ خان اپنی روایتی گرم جوشی میں تھوڑا اضافہ کرکے ملے۔ حال احوال کے بعد فرمانے لگے

"آپ کو مفتی عبدالرحیم صاحب نے سلام کہا ہے”

میری بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔ عرض کیا

"وہ اور مجھے سلام کہیں گے ؟”

فیض اللہ خان کے چہرے کی سنجیدگی بدستور برقرار رہی اور زور دے کر فرمایا

"میں سچ کہہ رہا ہوں، آپ کا بہت ہی احترام سے ذکر کیا انہوں نے اور مجھ سے کہا ہے کہ انہیں لے کر آئیں”

یہ کہتے ہوئے فیض اللہ خان نے ساتھ کھڑے ایک نوجوان عالم دین کو عبد الودود کے نام سے متعارف کرایا کہ یہ مفتی صاحب کے نمائندے ہیں اور ان سے انہوں نے کہا ہے کہ فاروقی کو لانا ہے۔ عبد الودود نے تصدیق کی تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فیض گئے ہوں گے تو فیس بک کے تذکروں میں میرا بھی ذکر آ گیا ہوگا سو مفتی صاحب نے رسما سلام بھی بھیج دیا ہوگا جو وقتا فوقتا قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن بھی بھیجتے ہیں لیکن فاصلے برقرار رکھ کر۔ میں نے بھی جوابی سلام پیش کرتے ہوئے ان دونوں سے کہا

"میں جامعۃ الرشید کو اپنا ادارہ سمجھتا ہوں اور مجھے وہاں جانے میں کوئی تردد نہیں”

سیمینار کا پہلا سیشن ختم ہوا تو عبد الودود نے بتایا کہ میں نے آپ کا سلام مفتی صاحب کو پہنچا دیا ہے، وہ اسلام آباد میں ہیں اور فرما رہے ہیں کہ 7 مارچ کو میری واپسی ہے اگر 8 کو آپ جامعہ آ جائیں تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔ میں نے بلا تردد حامی بھر لی۔ 8 مارچ کو فیض اللہ خان کے ساتھ جامعۃ الرشید جاتے ہوئے میں نے ان سے کہا۔

"میں نے ابھی چند روز قبل شامی مہاجرین کے لئے ہونے والے چندے کے خلاف پوسٹ کی ہے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ ملاقات اسی پس منظر میں ہونے جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ بہت ہی چھوٹا مقصد ہے۔ ایک موہوم سا امکان یہ ہے کہ مفتی صاحب نے سوچا ہو کہ بہت ہو گئیں یہ دوریاں، اب انہیں مٹنا چاہئے۔ اگر یہ مقصد ہوا تو یہ بڑی بات ہوگی”

میں عام طور پر بڑے علماء سے ننگے سر نہیں ملتا لیکن چونکہ یہ ملاقات ایک ایسے شخص سے تھی جس سے طویل کشمکش رہی تھی اور واضح نہیں تھا کہ ملاقات کے مقاصد کیا ہیں سو قصدا ننگے سر ہی گیا۔ مفتی صاحب جامعۃ الرشید کے وسیع و عریض لان میں کرسی پر تشریف فرما تھے۔ ہم جوں ہی لان میں داخل ہوئے ان کی نظر پڑ گئی۔ وہ فورا اٹھے اور بیس پچیس قدم چل کر ہماری جانب آئے تو اسی لمحے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ ملاقات شامی مہاجرین والے مسئلے پر نہیں ہو سکتی اور میرا ننگے سر آنا ٹھیک نہ تھا۔ وہ بہت تپاک سے ملے۔ عصر کی نماز میں پندرہ بیس منٹ تھے سو نشست کے اس مرحلے میں رسمی گفتگو ہی ہوئی۔ نماز کے بعد جامعہ کے مہمان خانے میں پہلی باقاعدہ نشست ہوئی جس میں جامعہ کی منیجمنٹ کے کچھ اور حضرات بھی شریک رہے۔ اس نشست میں زیادہ میں نے ہی بات کی اور ان سب نے میری گزارشات پوری توجہ اور بھرپور محبت کے ساتھ سنیں۔ میں نے دو گزارشات کیں۔ پہلی یہ کہ

"وقت بہت ہی مشکل آ پہنچا ہے۔ ہماری قدیم حکمت عملی اب شدید نقصان کا باعث ہے۔ یہ وہ پرانا وقت نہیں کہ رعایت اللہ فاروقی کو آپ 27 سال تک دھکے دے دے کر تھک جائیں مگر وہ آپ کے حلقے سے نہ نکلے بلکہ اب وہ نسل آ گئی ہے جو آپ کے معمولی سے دھکے پر بھی آپ کو چھوڑ کر چلی جائے گی۔ انسان متمدن ہے، اسے ہر حال میں دوسروں کی سنگت درکار ہے۔ آپ اپنی مجلس سے نکالیں گے تو وہ جنگل کا نہیں بلکہ کسی اور مجلس کا ہی رخ کرے گا اور یقین جانیئے باہر ایسی خوشبودار مجالس ہیں کہ ہوش اڑا دیتی ہیں، یہ ڈالروں کی خوشبو والی مجالس ہیں اور وہ بیٹھے ہی اس تاک میں ہیں کہ جسے آپ نکال دیں اسے وہ گود لے لیں لھذا میری درخواست ہے کہ بچوں کو دھکیلنا بند کریں۔ وہ جیسے بھی ہیں آپ ہی کے بچے ہیں۔ انہیں سینے سے لگائے رکھیں۔ یہی بگڑے ہوئے بچے کل آپ کے کام آئیں گے۔ عمر کے اس مرحلے پر نوجوان زبردست ذہنی ٹوٹ پھوٹ سے گزرتے ہیں اور یہی وہ عرصہ ہے جس میں انہیں سنبھالے رکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بار وہ چالیس برس کی عمر کو پہنچ جائیں تو پھر خود بخود ان کی طبیعت میں ٹھراؤ آ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا وہ شاہراہ ہے جہاں سے آپ کے بچے اغوا ہو رہے ہیں اور اغوا کاروں کو بھی کسی للو پنجو میں نہیں بلکہ بڑے مولویوں کے بچوں میں دلچسپی ہے۔ انہیں مولانا بنوری، مفتی نظام الدین شامزئی جیسے بڑے علماء کے بچے اغوا کرنے ہیں تاکہ دنیا کو بتا سکیں کہ وہ مولانا بنوری اور مفتی نظام الدین شامزئی کے بچوں کو "راہ راست” پر لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور اغوا کی ہر واردات پر ان کا ماسٹر مائنڈ ان سے کہہ سکے کہ "موگیمبو خوش ہوا !” اپنے بچوں کو ہر حال میں اپنے قریب رکھیں۔ ان کے سوالات کے جوابات دیں، انہیں گستاخ کہہ کر دہتکاریں مت۔ آپ بچوں سے سو فیصد اتفاق کی امید رکھتے ہیں، سو فیصد تو آج کل کا بچہ ماں باپ کی بھی نہیں مانتا اور ماں باپ بھی چھوڑ دیں، سو فیصد آج کا مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی بھی نہیں مان رہا تو آپ کی کیسے مانے گا ؟”

اس پر مفتی صاحب نے خوبصورت اضافہ کرتے ہوئے فرمایا

"حالانکہ اللہ اور اس کے رسول کی بات سو فیصد درست ہوتی ہے جبکہ ہماری بات تو سو فیصد درست بھی نہیں ہوتی”

دوسری گزارش یہ کی کہ

"ہمارے سماج میں مولوی کے خلاف بات کرنے والے افراد دو طرح کے ہیں۔ پہلے وہ جو لادین ہیں۔ وہ دنیا کے کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے۔ ان کا جھگڑا اسلام سے نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب سے ہے۔ اب چونکہ پاکستان مسلم ریاست ہے اور یہاں اسلام ہی ہر طرف زیر بحث ہے سو وہ اسلام اور مولوی کے خلاف بات کر رہے ہیں، اگر یہاں کوئی اور مذہب ہوتا تو یہ اسلام نہیں بلکہ اس دوسرے مذہب کے خلاف بول رہے ہوتے۔ یہ گروہ ایک معمولی اقلیت ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو لادین نہیں ہیں پکے دین دار ہیں اور میرے نزدیک ہر وہ شخص دین دار ہے جو نماز پڑھتا ہے۔ یہ دین دار لوگ مولوی کے خلاف اس لئے بولتے ہیں کہ یہ مولوی سے تھوڑے سے ناراض ہیں، یہ مخالفت نہیں کر رہے بس ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں اور ہم انہیں دین دشمن سمجھ لیتے ہیں۔ یہ ناراض لوگ بہت ہی معمولی سی بات پر ناراض ہیں اور وہ یہ کہ جب یہ ہمارے قریب آتے ہیں تو ہم انہیں داڑھی رکھنے دعوت دینی شروع کردیتے ہیں۔ ان کی پتلون اتار کر شلوار پہنانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ ایسا بدکتا ہے کہ اگلے دس سال تک کسی مولوی کے قریب نہیں پھٹکتا۔ ہمیں لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل دینا بند کرنا ہوگا۔ ہمیں ان سے صرف دوستی لگانی ہوگی۔ اگر ہمارے کردار میں دم ہوا تو ہمارا ماحول اور ہماری دوستی خود بخود ان میں تبدیلی رونما کریگی اور یہ پائیدار تبدیلی ہوگی۔ زبانی دعوت کے مقابلے میں ما حول کی دعوت بے پناہ مؤثر ہوتی ہے۔ زبان کی دعوت جذبات کو متاثر کرتی ہے جبکہ ماحول کی دعوت روح پر اثر چھوڑتی ہے۔ لھذا ہمیں لوگوں میں شریعت ایزی لوڈ نہیں کرنی چاہئے۔ بس ان سے دوستی کرکے انہیں اپنے قریب رکھنے کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔ میرے فیس بک فرینڈ سب کے سب دین ہی کی نسبت سے مجھ سے جڑے ہوئے ہیں، وہ آپ سے دور لیکن میرے قریب آتے ہیں۔ اور اس لئے قریب آتے ہیں کہ جانتے ہیں یہ مولوی ہماری پتلون نہیں اتارے گا، یہی لوگ روز انبکس میں شرعی مسائل پوچھ رہے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ عمل کے لئے ہی پوچھتے ہیں۔ میں ان سے فلموں پر بھی بات کرتا ہوں، میوزک بھی ان کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔ یہ سب اس لئے کرتا ہوں تاکہ وہ مجھ سے مانوس رہیں۔ انہیں میں مقدس تخت پر بیٹھا کوئی "حضرت” نہیں بلکہ اپنا اپنا سا لگوں، وہ فلم اور میوزک کی موج مستی کرتے ہیں تو کریں لیکن دین سے بھی جڑے رہیں۔ ان کے دین سے جڑے رہنے کی خاطر مجھے ان کا ہر عیب قبول ہے” –

میں اپنی بات کر چکا تو مفتی عبد الرحیم صاحب نے فیض اللہ خان کی جانب دیکھتے ہوئے فرمایا

"میں نے فیض اللہ خان صاحب سے چند روز قبل یہی کہا تھا کہ رعایت اللہ فاروقی صاحب کے خیالات اور ہمارے خیالات میں کوئی تضاد نہیں لیکن پتہ نہیں کیوں ہم ایک پیج پر نہیں”

پھر میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے بہت زور دے کر بولے

"مولانا رعایت اللہ فاروقی صاحب ! جو آپ فرما رہے یہی ہماری بھی سوچ ہے اور ہم نے جامعۃ الرشید کو اسی فکر پر استوار کیا ہے۔ اس مرحلے تک پہنچنے کے لئے میں بہت کٹھن مزاحمت سے گزرا ہوں۔ یہ مزاحمت باہر سے بھی تھی اور خود ہمارے ادارے کے اندر سے بھی۔ چند سال قبل صورتحال یہ تھی کہ میں بزنس کمیونٹی کے کسی فرد یا کسی اور پروفیشنل کو جامعہ مدعو کر لیتا اور ان کا اکرام کرتا تو ہمارے ادارے کے ہی افراد مجھ سے کہتے "آپ کیسے کیسے لوگوں کو لے آتے ہیں، آپ ان پتلون والوں کا اکرام کیوں کرتے ہیں ؟” لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور میں اپنے ان رفقاء کو بٹھا کر گھنٹوں سمجھاتا رہا کہ ان پتلون والوں کو میں آپ ہی کے لئے لاتا ہوں، آپ کا اور ان کا ساتھ چلنا معاشرے میں بہتری کے لئے بہت ضروری ہے۔ الحمدللہ وہ باتیں سمجھ آنے لگیں۔ ماحول اتنا تنگ تھا کہ جب میں نے اپنی شوریٰ کو آگاہ کیا کہ میں قاضی حسین احمد رحمہ اللہ کو مدعو کر رہا ہوں تو سب چونک اٹھے اور بہت سوں کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے لیکن میں قاضی صاحب کو لا کر رہا۔ یہاں باہر لان میں اپنے اساتذہ کو قاضی صاحب کے ساتھ بٹھایا اور قاضی صاحب نے ان سے گفتگو فرمائی تو سارے فاصلے پلک جھپکتے ختم ہوگئے۔ اسی ملاقات میں اگلا قدم اٹھاتے ہوئے میں نے قاضی صاحب سے درخواست کی کہ آپ ہمیں تین دن عنایت فرما دیں، ایسے تین دن جن کے دوران آپ کا ہر منٹ یہاں جامعہ میں گزرے اور آپ بالکل اکیلے ہوں۔ آپ کی جماعت یا فیملی کا کوئی ایک بھی فرد ساتھ نہ ہو۔ قاضی صاحب نے شفقت فرمائی اور کچھ عرصے بعد وہ بالکل اکیلے تشریف لے آئے، ہم گئے اور انہیں ایئرپورٹ سے اپنے ساتھ لے آئے۔ میں اور میری شوریٰ نے وہ تین دن ان کے ساتھ گزارے۔ میں نے قاضی صاحب سے کہا کہ آپ ان تین ایام میں اپنی پوری زندگی کے تجربات ہمارے ساتھ شیئر فرمائیں۔ اپنی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ناکامیاں اور کامیابیاں ہمارے سامنے رکھیں اور ہمیں آگاہ فرمائیں کہ آپ کے خیال میں ان ناکامیوں اور کامیابیوں کے اسباب کیا تھے تاکہ جن تجربات میں آپ ناکام ہوئے انہیں ہم دہرائیں نہیں اور جن میں آپ کامیاب ہوئے ان سے ہم استفادہ کرسکیں۔ قاضی صاحب بہت بڑے انسان تھے انہوں نے اپنی پوری زندگی ان تین ایام میں ہمارے سامنے کھول کر رکھدی جو ہمارے پاس قاضی صاحب رحمہ اللہ کی امانت ہے اور ان تین ایام میں ہم نے ان سے اتنا سیکھا جس کا کوئی اندازہ نہیں۔ یہی تجربہ ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی کیا اور ڈاکٹر صاحب چونکہ ایک بہت ہی ممتاز ماہر تعلیم تھے تو ان کے حوالے سے میری یہ سوچ بنی کہ انہیں مستقل ہمارے ہی پاس ہونا چاہئے۔ میں نے ان سے کچھ عرصے بعد درخواست کی تو انہوں نے قبول بھی فرما لی لیکن میرے رفقاء رکاوٹ بن گئے کہ ڈاکٹر صاحب کی داڑھی چھوٹی ہے اور وہ کوٹ پتلون بھی پہنتے ہیں، چنانچہ میں نے ڈکٹر صاحب سے گزارش کی کہ ابھی تھوڑا سا وقت لگے گا، مجھے ماحول بنانا پڑے گا۔ پھر میں نے اپنے رفقاء کی سوچ میں وسعت پیدا کرنے کی نئی محنت شروع کی اور جب اس کے نتائج سامنے آگئے تو ایک سال بعد میں نے ڈاکٹر صاحب سے دوبارہ رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ اب آپ جامعۃ الرشید سنبھالنے کی تیاری شروع کریں۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب سابق درخواست قبول فرمالی لیکن ہماری بدنصیبی کہ وہ رحلت فرما گئے۔ اسی طرح سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود سے بھی میں نے تین دن دینے کی درخواست کی۔ وہ تین دن تو نہیں دے سکے لیکن ایک دن انہوں نے ہمارے ساتھ گزارا۔ میں اور میری شوریٰ نے ان کی زندگی کے تجربات سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی ساری عمر گزار دینے والی معاشرے کی ان ممتاز شخصیات کو میں یہاں اسی لئے مدعو کرتا ہوں کہ میرے رفقاء کی سوچ میں وسعت پیدا ہو اور وہ بہت بڑی سطح پر سوچ سکیں۔ الحمدللہ بتدریج بہت کچھ ہوا ہے اور بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ جو باقی ہے وہ بھی بتدریج ہی ہوگا کیونکہ اس جمود کے پیچھے پوری ایک صدی کھڑی ہے۔ جو جمود ایک صدی میں قائم ہوا ہو وہ ٹوٹنے میں وقت تو لے گا لیکن انشاءاللہ العزیز ہم اسے توڑ کر رہیں گے”

درسِ نظامی پر مولانا ولی خان کے نام لکھے گئے میرے فروری 2007ء کے ایک طویل تنقیدی خط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا

"آپ کے اس خط کی کاپی میں نے کہیں سے حاصل کر لی تھی اور انہی دنوں اپنی شوریٰ کو بٹھا کر وہ پورا خط پڑھ کر سنایا تھا جس میں ہم پر بھی سخت تنقید تھی، میں نے شوریٰ سے کہا، انہوں نے لکھا بہت سخت ہے لیکن جو باتیں ہمارے متعلق کہی ہیں یہ ہیں سچ۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل مجھے آپ کی فیس بک پر لکھی ایک تحریر بہت زبردست لگی تو میں نے اسے ایک ایسے وٹس ایپ گروپ میں ڈالدیا جس میں مولانا فضل الرحمن اور سید سلمان ندوی جیسے پاک و ہند کے ممتاز ترین علماء شریک ہیں۔ وہ تحریر وہاں پوسٹ کرنے پر بعض علماء کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ لوگ آپ سے اتنی "محبت” (مسکراتے ہوئے) کرتے ہیں۔ لیکن میں نے اس کی پروا نہیں کی۔ اسی لئے میں نے آپ کو آج یہاں جامعہ میں مدعو کیا ہے کہ مجھے پروا نہیں اور میں آپ سے پوری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ جامعۃ الرشید ہمارا نہیں آپ کا ہے۔ ہم نے اس ادارے کو اسقدر وسیع خطوط پر استوار کیا ہے کہ ندوۃ العلماء کے بزرگوں نے اس کا نظام دیکھ کر فرمایا، آپ نے علی گڑھ، دیوبند اور ندوۃ العلماء کو ایک چھت تلے جمع کر ڈالا ہے جو ناقابل یقین ہے۔ یہاں کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والا شخص داخلہ لے سکتا ہے اور پڑھ سکتا ہے۔ اس کے انتظامی ڈھانچے کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ میں شوریٰ کو لکھ کر دے چکا ہوں کہ اس ادارے سے میرے خاندان کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی میرا خاندان اس پر کسی قسم کا حق رکھتا ہے۔ اگر میں نہ رہوں تو میرے بعد یہ میرے بیٹے کو نہیں ملے گا بلکہ یہ ادارہ اس کی شوریٰ کے پاس ہی رہے گا۔ اپنے بیٹے کو میں نے جامعہ سے اس قدر لاتعلق رکھا ہے کہ یہاں کے طلبہ و اساتذہ کی اکثریت شائد اسے جانتی بھی نہیں جبکہ میرے والد رحمہ اللہ جب یہاں ہوتے اور میں شام کو ادارے کے لان میں اساتذہ کے ساتھ بیٹھتا تو وہ اس مجلس میں بھی نہ آتے کہ کسی کو کوئی غلط تاثر نہ مل جائے۔ اس کے تمام شعبوں کے سربراہ مکمل خود مختار ہیں۔ مالیات کا نظام اسقدر شفافیت سے ترتیب دیا ہے کہ جس کے پاس رقم پڑی ہے اس کے پاس خرچ کرنے کا اختیار نہیں اور جس کے پاس خرچ کرنے کا اختیار ہے اس کے پاس رقم نہیں رکھی۔ خود میرے پاس نہ تو وہ رقم رکھی ہے اور نہ ہی میرے پاس اسے خرچ کرنے کا اختیار ہے۔ میرے زبانی یا تحریری حکم پر ایک روپیہ بھی ریلیز نہیں ہو سکتا۔” (جاری ہے)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے