قاضی کے آنسو
Reading Time: 6 minutesکئی سال سے عدالتوں کے دھکے کھاتا جوتیاں چٹخاتا آنسو بہاتا ایک سائل کمرہ عدالت میں داخل ہو اور سامنے ایک جج انصاف کے ممبر پر بیٹھا آنسو بہا رہا ہو تو سائل ایک بار کمرہ عدالت سے باہر جا کر نام کی تختی دوبارہ سے ضرور پڑھتا ہے کہ کہیں غلط جگہ تو نہیں آ گیا ۔ ایک بے بس مجبور لاچار اور مفلس کا رونا تو سمجھ آتا ہے مگر جس شخص کو خدا تعالٰی نے دولت ، عزت، شہرت اور اختیار دیا ہو تاکہ وہ اسکی مخلوق کی خدمت کرے تو پھر اسکا یوں سر عام رو رو کر اپنے برگزیدہ ہونے کا ثبوت دینا منافقت نہیں تو نالائقی ضرور ہے۔ دلوں کے حال اللہ تعالی بہتر جانتا ہے مگر حال ہی میں ایک معزز جج نے کھلی عدالت میں انصاف کے ممبر پر بیٹھ کر جس طرح آنسو بہائے وہ ناقابل فہم ہے۔جج موصوف نے اللہ تعالی کے عطا کردہ رتبے اور اختیار کو منصفانہ انداز میں استعمال کرنے کی بجائے اور توہین رسالت کے مرتکب ملزمان کو مجرم ثابت کرنے کی بجائے خود کو ایک اچھا مسلمان ضرور ثابت کردیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس مقدمے میں سائل رو رہا ہے کہ حکومت توہین رسالت کے مرتکب ملزمان اور ایسے مواد والی سوشل ویب سائٹوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر رہی ، دوسری طرف جن ملزمان کا نام لیا جا رہا ہے وہ رو رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا اور ایسے مواد سے انکا کوئی تعلق ثابت نہیں بلکہ انہیں بے گناہ اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنا یا گیا ، میڈیا پر انکی کردار کشی کی گئی اور انکی جان کو اس حد تک خطرے میں ڈالا گیا کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آنسو بہاتے منصف نے بھی اپنے بیانات اور چند احکامات سے ملزمان کو مجرم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ نامعلوم ملزمان کا نام کچھ ثابت ہونے سے پہلے ہی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا گیا ۔ کسی ملزم کا نام تو نہیں لیا گیا اور ابھی باقاعدہ کاٹی گئی ایف آئی آر میں بھی کسی کا نام نہیں، مگر جو تاثرات ، بیانات اور احکامات معزز جج صاحب کی طرف سے اب تک دیے گئے ہیں اور میڈیا میں جس طرح الزام کو جرم اور ملزم کو مجرم بنایا گیا ہے اسکے بعد شکر ہے کہ کسی منصف کے پاس سرکاری پستول نہیں ہوتا ۔ ہم سب مسلمان نبی کریم ﷺکی ذات پراپنی جان، مال، اپنے ماں باپ اور اولاد قربان کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ نوکری تو بہت معمولی چیز ہے مگر جب خدا تعالی کسی کو اختیار دیتا ہے تو اسکا استعمال کرکے بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی بجائے آنسو بہانے سے سرخرو نہیں ہوا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺکی شان میں گستاخی کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں مگر اس کے لیے گواہان و شہادتوں کا جو معیار مقرر کیا گیا ہے اس معیار پر ملزمان کو پرکھنے سے پہلے انکو مجرم قرار دینا بھی اسلام کا تقاضا نہیں ۔ کسی معزز جج کی طرف سے یہ کہنا کہ ریاست ناکام ہوتی ہے تو لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں یہ تاثر دیتا ہے کہ جیسے اس سے پہلےایک معاملے میں جرم ثابت ہو چکا تھا جبکہ اعلی عدالتوں کے فیصلے اس بر عکس ہیں ۔در اصل سلمان تاثیر کے قتل کے بعد بہت کچھ بدل چکا ہے ۔ مذہب ہم جیسے کمزور اور گنہگار مسلمانوں کی ڈھال بھی ہے اور ہمارے ہاتھ میں ہتھیار بھی ۔
نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غیر ملکیوں کو پھٹیچر قرار دیتے عمران خان کی وڈیو و جاری کرنے والی خاتون صحافی کے شوہر کے خلاف بھی یہی ہتھیار بظاہر تحریک انصاف کے ہماتیوں کی طرف سے چلا یا گیا ۔سوشل میڈیا پر متحرک انصاف بانٹنے والوں نے خاتون صحافی کی شوہر کی گوری رنگت اور سر کے بھورے بال ہونے کے باعث انہیں غیر مسلم گردانتے ہوئے توہین رسالت کی مرتکب ویب سائٹوں سے منسلک قرار دے دیا۔ حتاکہ عمران خان کو خود مداخلت کر کے یہ پراپیگینڈہ رکوانا پڑا۔ اور خاتون صحافی اور اسے شوہر کے ساتھ عمران خان کی بنائی گئی تصویر نے اس جھوٹ کو دفن کر دیا۔
مگر اب ریاست کے طاقت ور اداروں اور با اختیار شخصایات نے بھی مذہب کو ڈھال اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب ریاست اور اسکے اداروں کو اپنے راسخ العقیدہ ہونے کے ثبوت کے طور پر چند شہریوں کے خون کا چڑھاوا دینا پڑ رہا ہے۔ خون کے پیاسوں کی پیاس ہی تو بجھانی ہے۔ اب دوسرے مرحلے میں ریاست نے گیند عدلیہ کے صحن میں پھینک دی ہے۔ ریاست اور اسکے اداروں کو درپیش اندرونی جنونیت کا خطرہ تو ٹل گیا ہے، مگر اب جو گرنیڈ عدلیہ کے صحن میں اچھالا گیا ہے اس گرنیڈ کی نکلی ہوئی پن دیکھ کر کوئی جج روئے گا نہیں تو کیا کرے گا۔ مگر چھوٹی موٹی پرانی صحبت اور تربیت بھی کام آ جاتی ہے۔ اس کلی کے پھول بننے سے پہلے ہی اسے کمال مہارت سے وفاقی حکومت کے داخلی دروازے پر سجا دیا گیا ہے ۔ جہاں سے جلد ہی اس کلی کے پھول کی پتیاں ایک بار پھر بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادی کی قبر پر نچھاور کر دی جائیں گی ۔ ایک اچھی بات تو یہ ہو گی کہ توہین آمیز ویب سائٹس بند کر دی جائیں گی۔ بطور ایک مسلمان ملک اور ریاست ایسا کرنے کیلئے ریاستی اداروں کو اتنے پاپڑ کیوں بیلنے پڑے اس سوال کا جواب تشنہ رہے گا۔ بری بات یہ ہو گی کہ جن ملزم کرداروں سےیہ کہانی شروع ہوئی تھی تاریخ اور معاشرے کی نظر میں وہ بغیر کسی ثبوت اور عدالتی فیصلے کے بدنام رہیں گے، ملنے کے باوجود بھی لاپتہ رہیں گے اور پاکستانی ہونے کے باوجود بھی کچھ پاکستان میں نا آ سکیں گے ۔ خدا تعالی جن لوگوں کو اختیار دیتا ہے وہ اس اختیار کا درست اور فوری استعمال کرتے ہوئے اللہ کی مخلوق کو انصاف دینے کی بجائے اگر محض جذباتی بیان بازی کرتے رہیں تو عین ممکن ہے کہ ظالم بچ جائیں اور مظلوم پھنس جائیں ۔ عدل اور انصاف کی جو تلوار قاضی کے ہاتھ میں تھمائی جاتی ہے اس تلوار کے ہر انسان کی گردن پر چلنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ تلوار مجرم پر چلے مظلوم پر نہیں۔ آج کے دور میں جب فیصلہ کسی ماتحت عدالت میں ٹرائل کے بعد کرناہو تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز ججوں پر اپنی زبان اور اپنے آنسوں پر کنٹرول کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ صد افسوس صورتحال اسکے بر عکس ہے ۔ ریاستی عہدیداروں کیلئے اسلام کی سربلندی اور عظمت واسطے اللہ تعالی کے دیے ہوئے اختیارات ، طاقت کا استعمال اور قوت فیصلہ کو بروئے کار لانا زیادہ اہم ہے نہ کہ فیصلے اور عمل کے وقت جذبات اور آنسوں کے ساتھ بہہ جانا ۔ آنسو تو غریب ، مسکین اور مظلوم سائل بھی بہاتے ہیں ، عادی قاتل ، ملزم بھی دھاڑے مار کر روتے ہیں ، کبھی کبھی وکلاء حضرات بھی فیسوں کے عوض رونا دھونا کرتے ہیں ۔ بڑے بڑے فوجی آمروں ، سیاست دانوں ، سرکاری افسروں اور صحافیوں کو بھی ہم نے آنسو بہاتے دیکھا ہے ۔ کچھ سیاست دان ٹی وی پر مباحثوں سے پہلے نم آنکھوں کے ساتھ تلاوت قرآن پاک بھی کرتے ہیں اور بعد میں جو کچھ ہوتا ہے وہ دنیا دیکھتی ہے ۔ جس طرح سیاست دانوں کے رونے پر عوام ووٹ نہیں دیتے ، ملزمان کے رونے پر انہیں بری نہیں کر دیا جاتا اسی طرح کوئی جج اللہ کی مخلوق کو انصاف دیے بغیر اللہ اور اسکے رسولﷺ سے محبت کا دعوے دار کیسے ہو سکتا ہے۔ پورے ملک کی عدالتوں میں بیس لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں ۔ عدالتوں اور خاص کر ماتحت عدالتوں میں عوام جس طرح انصاف کیلئے در بدر دھکے کھا رہی ہے ایسے میں آٹھ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ ، کار، کوٹھی، سکیورٹی اور دوسری سہولیات لینے والے جج کے بہتے آنسو اور غریب سائلین کی خشک آنکھوں میں سے خدا کس کے زیادہ قریب ہے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ہماری قوم پر اب یہ وقت بھی آنا تھا کہ سائلین انصاف نہ ملنے پر رو رہے ہیں ، ملزمان اپنی بے گناہی کا رونا روتے ہیں اور ہمارے منصف کمرہ عدالت میں تحریری فیصلوں کی بجائے اپنی عاقبت پر ماتم کنا ہیں۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالی حقوق اللہ تو معاف کر دے گا مگر حقوق العباد نہیں ۔ بہر حال ریاستی مفاد میں کچھ کہانیاں جنم دی جاتی ہیں اور کچھ کا رخ موڑا جاتا ہے ۔ ان کہانیوں کے کچھ کرداروں کی قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور کچھ کی قربانی کو نشانے عبرت بنایا جاتا ہے ۔ ہم جیسے شہریوں کیلئے دو ہی راستے ہوتے ہیں، اپنی قربانی یا پھر اپنے بنیادی حقوق کی ۔ ہمارے سینکڑوں پاکستانی ابھی بھی لاپتہ ہیں ۔ ان کے بچے بڑے ہو گئے ہیں۔ انکے لواحقین کی آنکھوں میں بھی آنسو ہیں ، مگر شاید وہ قاضی کے آنسو نہیں ۔۔۔