کالم

پرویز رشید کا ذکر ہی نہیں

مئی 2, 2017 5 min

پرویز رشید کا ذکر ہی نہیں

Reading Time: 5 minutes

وزیراعظم کے دفتر سے گزشتہ ہفتے ایک حکم جاری ہوا۔ اس کے ذریعے اخباری مالکان کی تنظیم APNS کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ وہ رپورٹروں اور کالم نگاروں کے لئے کوئی ضابطہ کار طے کرے۔ اس حکم کو ایک ٹویٹ کے ذریعے پاک فوج کی جانب سے فوراً "Reject” کر دیا گیا تھا۔ اس بات کی البتہ وضاحت نہیں ہوئی کہ APNSکو ملی ہدایت کو بھی ٹھکرا دیا گیا ہے یا نہیں۔ گو، حق گوئی پر مجبور میرے کچھ ساتھی یہ گماں کرنے کو ترجیح دیں گے کہ چونکہ ہفتے کے روزصادر ہوئے حکم کو مکمل طورپر رد کردیا گیا ہے، اس لئے APNS پر بھی اب کارکن صحافیوں کے لئے کوئی ”ضابطہ کار“ تیار کرکے اس پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی ذمہ داری ضروری نہیں رہی۔
مجھ ایسے تنخواہ کے محتاج لفظ تراشوں کو مگر احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ جب تک بہت واضح الفاظ میں وضاحت نہیں ہوجاتی کہ رپورٹروں اور کالم نگاروں کو APNSکی جانب سے تیار کردہ ”ضابطہ کار“ میں محدود رہ کر ہی لکھنا ہے یا نہیں، احتیاط سے کام لیا جائے۔
ایک پیدائشی بزدل ہوتے ہوئے مجھے ویسے بھی حقائق کا کھوج لگاکر ان کی روشنی میں اپنی حکمران اشرافیہ سے سوالات پوچھنے کی عادت نہیں۔ کبھی کبھار صاحبِ ایمان وطن پرستوں کی تحریریں پڑھ کر اگرچہ دل مچل جاتا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر قوت و اختیار سے مالامال اداروں کی اندرونی کہانیاں برسرِ عام کرنے والے اینکر خواتین وحضرات پر مجھے اکثر بہت رشک بھی آتا ہے۔
6 اکتوبر 2016ءکی صبح ”ڈان“ اخبار میں ایک ”خبر“ شائع ہوئی تھی۔”خبر“‘ کے دائیں بائیں میں نے کومے اس لئے لگائے ہیں کہ چھپنے کے بعد اس کی ایک نہیں تین بہت تگڑی تردیدیں شائع ہو گئی تھیں۔صحافت کے ابتدائی ایام میں مجھے استادوں نے بڑی درشتی سے یہ سمجھایا تھا کہ سخت الفاظ میں جاری ہوئی تردید کسی خبر کو دینے والے رپورٹر کی ساکھ کے لئے تباہ کن ہوتی ہے۔
جوانی کے دنوں میں اگرچہ کئی بار یہ بھی ہوا کہ میری کسی خبر کی تردید جاری ہوتی تو میں ثبوتوں کے انبار لے کر اپنے دفتر پہنچ جاتا۔ اپنے مدیر اور دیگر سینئرز کے سامنے واویلا مچاتا۔ وہ پتھر بنے میرااحتجاج سنتے اور پھر ان میں سے کوئی میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کسی مناسب ریستوران میں کھانا کھلوانے لے جاتا۔ اس دوران مجھے سمجھایا جاتا کہ سچی خبروں کی تردید شائع کرنا بھی کبھی کبھار کسی اخبار کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہوجاتا ہے۔ایسے معاملات پر دل نہیں جلایا کرتے۔
6اکتوبر2016ءکی صبح چھپی”خبر“‘ کے ساتھ مگر ایسا نہیں ہوا۔بہت شوروغوغاکے بعد ایک ریٹائرڈ جج صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنی۔ اس کمیٹی میں قومی سلامتی کے تمام اداروں اور FIA کے ایک مہاتفتیشی افسر مشہور ہوئے صاحب بھی موجود تھے۔ 6 سے زیادہ مہینوں کی مشقت کے بعد اس کمیٹی کی رپورٹ حکومت کو بھجوادی گئی۔ اس کمیٹی کی بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ ہمیں سمجھاتی کہ وزیراعظم کے دفتر میں موجود کسی شخص نے کیسے قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی ایک ”خبر“ رپورٹر پر”پلانٹ“ کی تھی۔
حکومت کو فراہم کی گئی رپورٹ میرا یہ کالم لکھنے تک منظرِ عام پر نہیں آئی ہے۔ گزشتہ ہفتے کا آغاز ہوتے ہی لیکن ہمارے کئی مستعد رپورٹروں نے اس کے مندرجات کو کافی تفصیل کے ساتھ بینڈ باجہ والے Bang کے ساتھ پھوڑی Breaking Newsکے طورپر بیان کرنا شروع کردیا تھا۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت فی الفور ایک اور کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کرتی۔ اس کمیٹی کو یہ معلوم کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی کہ اس رپورٹ میں جو ابھی تک وزیر اعظم کے دفتر بھی نہیں پہنچی تھی، مبینہ طورپر درج تفصیلات رپورٹروں کے ایک گروہ کو کون Leak کر رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے مگر اس ضمن میں کوئی پریشانی نہیں دکھائی۔ چپ کرکے دڑوٹ گئے۔ میری بہت خواہش ہے کہ میرے اندر موجود رپورٹر کا چراغ بجھنے سے پہلے مجھے بھی ایسی Leaksعطاہونے کا بندوبست ہوجائے۔ ”اندر“ کی ہر بات جاننے والی شہرت کا حصول ہرصحافی کی تمنا ہوتی ہے۔میں بھی اس تمنا کی وجہ سے بہت بے چین رہتا ہوں۔اس شہرت کے بغیر صحافت میں گزاری دو سے زیادہ دہائیوں کو رائیگاں کا سفر ٹھہراتے ہوئے اداس ہو جاتا ہوں۔
اپنی عمر کے کئی توانا برس رائیگاں کے سفر میں ضائع کرنے کے بعد دریافت اب یہ ہوا ہے کہ کچھ Leaks ایسی ہوتی ہیں جنہیں خشوع وخضوع سے شائع یاجذبات کی شدت سے اکھڑتے سانسوں کے ساتھ ٹیلی وژن پر بیان کیا جائے تو کوئی ”پوچھ پرتیت“ نہیں ہوتی۔ قارئین وناظرین بھی آپ کی قوت واختیار والوں تک رسائی اور حق گوئی سے مرعوب ہوجاتے ہیں۔ ٹہکا شہکا۔ جس کا مجھے بھی بہت ارمان ہے۔
فی الوقت اگرچہ میرا ذہن ماﺅف ہے۔ میری جوانی کے دنوں میں ”ہدایت نامہ برائے خاوند“ نامی ایک کتاب کا بہت شہرہ تھا۔ مجھے یہ کتاب پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا۔ اب تو ویسے بھی ”مرنے کے بعد کیا ہوگا“ والی کتاب اپنے بستر کے سرہانے رکھنا ضروری ہوگیا ہے۔اس کے ساتھ ہی مگر مجھے وہ ”ہدایت نامہ“ بھی رکھنا ہوگا جو APNSاس ملک کے رپورٹروں اور کالم نگاروں کے لئے تیار کرے گا۔
APNS کو رپورٹروں اور کالم نگاروں کے لئے ”ہدایت نامہ“ تیار کرنے کے لئے یقینا وقت درکار ہے۔ اس وقت تک ”مچھندر“ اپنی روٹی کس طور کمائے؟ اس سوال پر غور کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ APNSکی جانب سے ”ہدایت نامہ“ وصول ہونے تک قیاس آرائی سے اپنے رزق کا بندوبست کیا جائے۔ اس قیاس آرائی کو مگر وزیر اعظم کے دفتر تک محدود رکھا جائے کیونکہ اس ملک میں یہ وہ واحد دفتر ہے جس کا ان دنوں کوئی والی وارث نہیں۔ اس دفتر کا ذکر کرتے ہوئے کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جڑی بے وقعتی کوذہن میں رکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ جمعرات 20اپریل 2017ءکے تاریخی دن جب سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا تو عزت مآب جسٹس کھوسہ کے قلم سے ”گاڈ فادر“ ٹھہرائے وزیراعظم اپنے بھائی اور چند مصاحبین کے ساتھ اپنے دفتر میں مسکراتے دکھائے گئے تھے۔ اس تصویر میں وزیر اعظم کے ساتھ پرویز رشید بھی موجود تھے۔ موصوف 6اکتوبر 2016ءکی صبح تک وزیر اطلاعات تھے۔ ڈان والی خبر چھپی تو انہیں ”برطرف“ کردیا گیا۔اگرچہ حقیقت یہ بھی تھی کہ اپنی ”برطرفی“ کے اعلان سے کچھ ہی لمحے قبل پرویز رشید”استعفیٰ“ لکھ کر اسے وزیر اعظم کو ای میل کے ذریعے بھجواچکے تھے۔
بہرحال ،20اپریل 2017ءکے تاریخی دن پرویز رشید کی وزیراعظم کے دائیں بائیں موجودگی نے کئی لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ شاید نام نہاد”ڈان لیکس“ کے بارے میں ہوئی انکوائری کے بعد انہیں اپنے عہدے پر بحال کردیا جائے گا۔ شاید اسی لئے گزشتہ ہفتے کی صبح وزیر اعظم کے دفتر سے جو حکم جاری ہوا اس میں پرویز رشید کا ذکر ہی نہیں تھا۔
قیاس آرائی کے لئے مچلتا ہوا میرا دل نہ جانے کیوں یہ محسوس کررہا ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہوئے حکم کو ایک ٹویٹ کے ذریعے Reject اس لئے کردیا گیا تھا کہ اس میں پرویز رشید کا ذکر ہی نہیں تھا ۔شاید پرویز رشید کے ذکر کے بعد یہ عندیہ دینا بھی ضروری تھا کہ موصوف کے خلاف اگر کوئی کارروائی نہ بھی ہوئی تو کم از کم انہیں کابینہ میں دوبارہ شامل نہیں کیا جائے گا۔ایسا ہوجاتا تو شاید وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہوئے حکم کو اس انداز میں Rejectنہ کیا جاتا۔
میں نے آج کے رزق کا بندوبست محض ایک قیاس آرائی کے ذریعے کرلیا ہے۔خدارا اسے سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ یا وہ گوئی پر مجبور ہوں، کیونکہ APNSنے ابھی تک میرے لئے کوئی ”ہدایت نامہ“ تیار نہیں کیا ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے