پاکستان

دستاویزات کہاں سے لائیں

جولائی 25, 2017 2 min

دستاویزات کہاں سے لائیں

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ نے عمران خان نااہلی کیس میں پیش کیے گئے دستاویزات کی تصدیق کیلئے مہلت دیدی، وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ جن بنکوں میں اکاﺅنٹس تھے وہ کب کے بند ہوچکے، چیف جسٹس نے کہاکہ پھر یہ بھی سوال اٹھے گاکہ یہ دستاویزات کہاں سے لاکر پیش کی گئیں؟۔ عدالت نے کل سے جہانگیر ترین کے خلاف حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت شروع کرنے کی ہدایت کردی ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے عمران خان کی نااہلی کیلئے دائر حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ تمام دستاویزات پیش کردی ہیں، انگلینڈ کی کاﺅنٹی کرکٹ سے کمائی کا ریکارڈ نہیں مل سکا تاہم آسٹریلیا کی کیری پیکر سیریز سے حاصل دولت انگلینڈ منتقل کرنے کا بنک ریکارڈ موجود ہے۔لندن فلیٹ کی خریداری کی تمام منی ٹریل دیدی ہے، رقم آنے جانے کی دستاویزات بھی عدالت کو فراہم کی جائیں گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میڈیا پر اور باہر لوگ اس معاملے کو کیسے دیکھتے ہیں عدالت کا مسئلہ نہیں، درخواست گزار یہاں منی لانڈرنگ کا مقدمہ لے کرنہیں آیا بلکہ اس کا کیس یہ ہے کہ لندن فلیٹ خریدنے کیلئے ایک لاکھ سترہ ہزار پاﺅنڈ کہاں سے آئے۔عدالت نے اپنے اطمینان کیلئے عمران خان سے دستاویزات طلب کیں۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ انیس سو چوراسی میں لندن فلیٹ کیلئے دس فیصد رقم ڈاﺅن پیمنٹ کے طور پر دی گئی، باقی رقم کیلئے پچپن ہزار پاﺅنڈ رائل ٹرسٹ بنک سے تیرہ فیصد سود پر لیے گئے، یہ رقم قسطوں میں انیس سو نواسی تک ادا کردی گئی۔ عدالت کے سامنے مقدمہ ہے کہ عمران خان کے پاس فلیٹ خریدنے کے لئے رقم نہ تھی، عدالت کے سامنے کہا گیا کہ عمران خان نے تیکس چوری کیا، نعیم بخاری نے کہاکہ عمران خان کے خلاف مقدمہ لایا گیا کہ فراڈ کرکے ٹیکس استثنی سکیم سے فائدہ اٹھایا گیا، عدالت کو بتا دیا ہے کہ عمران خان کھلاڑی تھے اور کمائی کرتے تھے، عدالت میں یہ ثابت کر دیا کہ عمران خان نے کمائی سے خریدا، عمران خان نے لندن فلیٹ پاکستان میں ظاہر نہیں کیا کیونکہ ٹیکس قانون کے تحت ضروری نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست گزار ٹیکس قانون کا نہیں بلکہ یہ کہتا ہے کہ اثاثے چھپانے پرعمران خان صادق اور امین نہیں رہے، وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ قوانین کے مطابق باہر بنائے گئے اثاثے یہاں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ یہاں کیس یہ لایا گیا عمران خان 1981 میں ٹیکس فائلر بنے لیکن اسکے بعدبھی لندن فلیٹ ظاہر نہ کیا گیا،وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ اسکے لئے رہایشی یا غیر رہائش کا معاملہ دیکھنا ہوگا، نعیم بخاری نے کہاکہ عدالت اگر چاہے تو خودعمران خان کے ٹیکس ریکارڈ کا جائزہ لے، ٹیکس حکام نے کبھی نوٹس نہیں دیا، عمران خان کو ان کے مشورہ دیا گیاتھاکہ غیر رہائشی کیلئے بیرون ملک اثاثہ ظاہر کرناضروری نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس طرح تو کوئی بھی شخص انجان بن سکتا ہے کہ اسے اثاثے ظاہرکرنے کا مشورہ نہیں دیا گیاتھا۔ نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل انور منصور کی عدم حاضری پر پارٹی کی فارن فنڈنگ معاملے پر دلائل کیلئے سماعت اکتیس جولائی تک ملتوی کردی جبکہ کل سے جہانگیر ترین کی نااہلی کیلئے دائر حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کا آغاز ہوگا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے