اہم خبریں

نو مئی کے ملزمان کی مذمت کے لیے ٹرائل کی کارروائی پبلک کی جانی چاہیے: سپریم کورٹ

جنوری 29, 2025 2 min

نو مئی کے ملزمان کی مذمت کے لیے ٹرائل کی کارروائی پبلک کی جانی چاہیے: سپریم کورٹ

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے ٹرائل کے مقدمے کی سماعت کی ہے۔

بدھ کو سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنے والا جج تو اتھارٹیز کے ماتحت ہوتا ہے۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر کسی کے پاس کوئی شواہد ہیں تو بات کریں، محض تاثر پر اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نہ مجھے کسی پر کوئی شک ہے نہ اعتراض ہے،
سوال یہ ہے کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرنے والے کون ہیں، اس لیےپوچھا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے وزارت دفاع کے وکیل سے کہا کہ پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لیا،
میں بہت تفصیل میں نہیں گیا، نو مئی واقعات میں بظاہر سیکورٹی آف سٹیٹ کا معاملہ نہیں لگتا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق نو مئی واقعات کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل بہت تفصیل سے چلایا گیا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ کیا یہ ممکن نہیں یہ تمام ریکارڈ پبلک کر دیا جائے تاکہ پبلک ان ملزمان کی مذمت کر سکے،
نو مئی واقعات کے ملزمان نے جو کارنامے سرانجام دیے وہ عوام میں بے نقاب ہونے چاہییں۔

وکیل نے کہا کہ یہ تو اتھارٹیز نے طے کرنا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 175 کے تحت ملٹری کورٹس کے قیام کے لیے گنجائش رکھی گئی ہے؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر عدالت اس طرف جائے گی تو اب تک ملٹری کورٹس کے قیام سے متعلق جتنے بھی فیصلے دیے گئے ان پر نظرثانی کرنا پڑے گی، آئین میں آئین و قانون کے تحت عدالتوں کے قیام کا زکر ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ بہت سارے ممالک میں ملٹری کورٹس قائم ہوئیں۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ نارکوٹکس کا پورا کنٹرول فوج کے پاس ہے، نارکوٹکس میں جب کسی ملزم کا ٹرائل چلانا ہوتا ہے تو متعلقہ چیف جسٹس سے سیشن جج مانگا جاتا ہے،
کیا یہاں بھی ملٹری کورٹس کیلئے ایسا کیا جاسکتا ہے۔

وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تمام عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس کو آرٹیکل 175 سے الگ رکھا گیا ہے، آرمی ایکٹ کو بنیادی حقوق کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر ملٹری ٹرائل اتنا ہی اچھا ہے تو پھر سارے کسیز ان کو پی بجھوا دیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کا فوجی ٹرائل میں کیا معیار ہے میں عدالت کی اس پر معاونت کرتا ہوں.عوامی سماعت ہوتی ہے، پبلک ہیرنگ کا مکمل موقع دیا جاتا ہے۔ آزادنہ اور غیر جانبدرانہ ٹرائل ہوتا ہے۔ شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔ آرٹیکل 175 اے میں کہا گیا ہے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے۔ ملٹری کورٹس بھی آزاد ہوتی ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے