ججوں اور وکیلوں کا گٹھ جوڑ
Reading Time: 5 minutesسپریم کورٹ سے اے وحید مراد
ملک کی سب سے بڑی عدالت میں وکالت کرنے والے کالے کوٹوں میں ملبوس دو ہزار سے زائد افراد کو اسلام آباد میں قیمتی پلاٹ کا مالک بنانے کیلئے کوششیں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں شروع ہوئی تھیں۔ کئی برس سے یہ مقدمہ سپریم کورٹ کے ججوں کا سینکڑوں گھٹنے کا وہ وقت کھاچکا ہے جو ٹائم عام لوگوں کے مقدمات کی سماعت کیلئے مختص ہے اور جس کیلئے اس ملک کے شہری ریاست کو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
افتخار محمد چودھر ی کی عدالت اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے مل کر ریڈ زون میں ایک ارب روپے کی زمین اور ایک ارب کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کرکے عدالت عظمی کے وکیلوں کیلئے ہاسٹل کی عمارت بنا دی تھی جس کو اب ایک ٹھیکیدار کے حوالے کرکے ہوٹل چلایا جا رہا ہے اور بیس لاکھ ماہانہ کرائے کی مد میں کمائے جا رہے ہیں۔ سائلین سے لاکھوں کروڑوں روپے فیس لے کر ٹیکس نہ دینے والے ان وکیلوں نے ہاسٹل ملنے کے بعد سب سے مہنگے شہر میں اپنی ہاﺅسنگ سوسائٹی بنانا چاہی اور اس کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دیدی۔
گزشتہ چار برس سے اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے مختلف مواقع پر عدالت نے مختلف حکم ناموں کے ذریعے اسلام آباد انتظامیہ، وفاقی ترقیاتی ادارے اور ہاﺅسنگ کی وزارت کو ہدایت کی کہ وکیلوں کیلئے زمین ڈھونڈے اور پلاٹ بناکر دیے جائیں۔ جی فورٹین سے لے کر ایف سیونٹین اور پھر بہارہ کہو کے قریب ایک موضع میں زمین ڈھونڈی گئی مگر کہیں پر وفاقی ترقیاتی ادارے کے قواعد اور کہیں زمین مالکان آڑے آتے رہے۔ وکیل چاہتے ہیں کہ ہر کالے کوٹ والے کو ایک کنال کا پلاٹ ملے اور ان کی بستی میں کوئی دوسرا داخل نہ ہو یعنی صرف وکیل ہی سوسائٹی میں رہیں اور کنال سے کم پلاٹ الاٹ نہ کیاجائے۔ اس کیلئے وہ بیس سے چالیس لاکھ تک کی رقم ادا کرنے کیلئے تیار ہیں بلکہ ہاﺅسنگ فاﺅنڈیشن کو چار ارب روپے کے لگ بھگ ادائیگی کر بھی چکے ہیں۔
ڈیڑھ سال قبل وفاقی انتظامیہ نے وکیلوں کی سوسائٹی کیلئے پارک روڈ پر کامسیٹس یونیورسٹی کے بالمقابل زمین کی نشاندہی کی۔ وکیل راضی ہوئے اور عدالت نے زمین واگزار کرنے کی ہدایت کی۔ اس دوران اس زمین کے مالکان سامنے آگئے۔ چونکہ بڑی ہاﺅسنگ سوسائٹی بننی ہے تو زمین بھی ہزاروں کنال درکار ہے۔ جہاں سوسائٹی بنانے کی نشاندہی کی گئی ہے اس زمین میں کئی موضعات ہیں اور ہزاروں مالکان ہیں۔ جب سے ان کو علم ہوا کہ ان کی زمین بیس لاکھ روپے کنال کے نرخ پر لی جائے گی، ان کی راتوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں کیونکہ اس علاقے میں ڈویلپمنٹ کے بعد ایک کنال زمین دوکروڑ تک فروخت ہوگی۔ مجوزہ وکیل ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ایسی زمین بھی آتی ہے جس پر سینکڑوں چھوٹے بڑے گھر تعمیر ہوچکے ہیں اور ان میں رہائش پذیر لوگ انہیں بیچنے کیلئے تیار نہیں۔
ایسے ہی کئی زمین مالکان نے دس اگست کو سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک کا رخ کیا جہاں چیف جسٹس ثاقب نثار انصاف کی مسند پر بیٹھے وکیلوں کی ہاﺅسنگ سوسائٹی کا مقدمہ سن رہے تھے۔ یہ مقدمہ دو گھنٹے تین ججوں نے سنا، وفاقی انتظامیہ، سروے آف پاکستان کے افسران، ہاﺅسنگ اتھارٹی اور لینڈ ایکوزیشن کے حکام عدالت میں موجود تھے۔ جب ججوں نے کھل کر سرکاری افسران پر وکیلوں کیلئے زمین حاصل کرنے کا دباﺅ ڈالا تو متاثرین بھی عدالت میں کھڑے ہوگئے۔ ایک متاثرہ زمین مالک نے چیف جسٹس کو کہا کہ آپ نے ہماری زمین لینی ہے ضرور لیں، عدالت حکم دے اور ہم زمین دینے کیلئے تیارہیں مگر یہ زمین آئین کے مطابق ریاست کے کسی مقصد کے لیے لی جاسکتی ہے، ہم اسے اونے پونے داموں دیدیں گے۔ اگر ہماری زمین پر سپریم کورٹ کی عمارت بننی ہے تو مفت بھی لے لیں، مگر ان وکیلوں کے گھر بنانے ہیں تو ہم اپنے گھر کیوں گرانے دیں؟۔ آئین نے تمام شہریوں کو برابر قرار دیا ہے۔ جتنے حقوق ان وکیلوں کے ہیں اتنے ہی ہمارے بھی ہیں۔ کس قانون کے تحت ہماری زمین لے کر، ہمارے گھر گرا کر ان وکیلوں کے بنگلے بنائے جائیں گے۔؟ سپریم کورٹ کے تین جج صرف خاموش رہ کر سنتے رہے۔ دو گھنے کی سماعت کے بعد مقدمہ گیارہ اگست تک کیلئے ملتوی کیا گیا۔ اٹارنی جنرل کو کہا گیا کہ وہ بتائیں ہاﺅسنگ سوسائٹی کیسے بنے گی؟۔ جبکہ سروے آف پاکستان کے افسر کو ہدایت کی گئی کہ علاقے میں زمین کی پیمائش کرکے رپورٹ دی جائے۔
آج گیارہ اگست دوہزار سترہ ہے۔ گزشتہ روز عدالت کے کمرے میں بولنے والے متاثرہ زمین مالکان کو پولیس اہلکاروں نے سپریم کورٹ کی عمارت میں داخل ہونے سے ہی روک دیا۔ عدالت پھر لگی، چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی مسند پر بیٹھے۔ اٹارنی جنرل پیش ہوئے، بولے کہ حکومت ہرقسم کا تعاون کرنے کیلئے تیار ہے، علاقے میں زمین مہنگی ہے، زمین مالکان کو راضی کیا جائے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زمین کے حصول کے لیے ماضی میں آصف کرمانی اور پرویزرشید بھی مقامی لوگوں سے ملاقات کرچکے ہیں۔ میں نے بھی وکیلوں کے نمائندوں سے مل کر بات کی ہے، جیسے عدالت ہدایت کرے گی تعاون کیلئے تیار ہوں۔
اسی دوران عدالت میں سروے آف پاکستان کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد فاروق کھڑے ہوئے اور بولے کہ گزشتہ روز آپ نے علاقے کا دورہ کرکے رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی، باہر نکلا تو زمین مالکان میں سے ایک شخص نے دھمکی دی کہ مرنا ہے تو ہماری زمینوں پر آ جانا، اپنی زمین پر تمہیں گھسنے نہیں دیں گے۔ عدالت نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو ہدایت کی کہ زمین کے سروے کے دوران افسران کو سیکورٹی فراہم کی جائے اور ایک ماہ میں زمین سروے کی رپورٹ جمع کرائی جائے۔
عدالت کو ہاﺅسنگ کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایاکہ چونکہ وکیلوں کی جانب سے جمع کرائی گئی رقم اور پلاٹوں کے حصول کی درخواستیں کم ہیں اس لیے باقی زمین کی خریداری کیلئے رقم سرکاری افسران کو پلاٹ بیچ کر پوری کی جائے گی، اس کیلئے افسران کو خطوط لکھے ہیں کہ کون ایک کنال کا پلاٹ لینے میں دلچسپی ر کھتاہے اور اس کیلئے چالیس لاکھ کی رقم ادا کرنے کو تیار ہے۔جیسے ہی بقایا رقم پوری ہوتی ہے مزید کام تیزی سے کیا جائے گا۔ وکیلوں نے اس موقع پر مداخلت کی اور کہاکہ سرکاری افسران بہانے کر رہے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ وکیلوں کو زمین ملے اور نہ ان کی سوسائٹی بنے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ان افسران نے ایسا کیا اور تاخیر ہوئی تو ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں گے، ڈی جی ہاﺅسنگ سن لیں۔ (اسی دوران ایک رپورٹر پچھلی نشستوں سے اٹھ کر سامنے کے ڈیسک پر بیٹھا)۔ چیف جسٹس ثاقب نثار جس تیزی سے سرکاری افسران کو دباﺅ میں لا رہے تھے، اسی تیزی سے واپس ہوتے ہوئے بولے کہ دیکھیں ہم آپ پر کوئی دباﺅ نہیں ڈال رہے، کارس پونڈنٹ (اخباری نمائندے) بیٹھے ہوئے ہیں، ڈی جی صاحب، آپ کو جتنا وقت درکار ہے لے لیں اور کام کریں۔
وکیلوں نے پھر عدالت میں شور ڈالا کہ لینڈ ایکوزیشن افسر کام نہیں کر رہیں اور عدالت میں ایک ماہ میں جس کام کو مکمل کرنے کا کہاتھا پانچ ماہ بعد بھی نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لینڈ ایکوزیشن افسر رابعہ اورنگزیب نے بتایاہے کہ توہین عدالت کی کارروائی سے بچنے کیلئے ان کو جیسا مشورہ وکیل دیتے ہیں وہ اس کے مطابق عدالت میں یقین دہانی کراتی ہیں، ایک ماہ میں وہ کام ممکن نہیں تھا مگر انہوں نے وکیل کے مشورے پر یقین دہانی کرائی ۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ خاتون افسر لینڈ ایکوزیشن کے قوانین کے تحت ہی کام کرسکتی ہیں، قوانین کو بائی پاس تو نہیں کیا جاسکتا۔ اس موقع پر عدالت کو خاتون افسر نے بتایاکہ وہ اپنا کام دو ہفتوں میں مکمل کرلیں گی، تمام اعتراضات کا جائزہ لیا جا چکا ہے، مجوزہ زمین پر مختلف ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بھی قائم ہیں، کچھ پیچیدگیاں ہیں مگر دوہفتوں میں اپنی رپورٹ کمشنر اسلام آباد کے حوالے کریں گی۔ سی ڈی اے حکام کو خطوط لکھے ہیں جواب نہیں آیا۔ عدالت نے وفاقی ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کو خطوط کا تین روز میں جواب دینے کی ہدایت کی۔
اس کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت ستمبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔