پاکستان

عدالت میں تالیاں

دسمبر 14, 2017 2 min

عدالت میں تالیاں

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ میں پنشنرز کو عدم ادائیگی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ملک میں کسی کو عام آدمی کی فکر نہیں، سیاسی مقدمات عدالت کا وقت لے جاتے ہیں اور ان پر شام کو تبصرے ہوتے ہیں، کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ فیصلہ اس کے ہی حق میں آئے گا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی، پنشنرز کی وکیل عائشہ حامد نے عدالت کو بتایا کہ کیس زیرسماعت ہے اور اس دوران 9 پنشنر ز وفات پا گئے ہیں لیکن ان کوحق نہیں ملا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو پنشن لیے بغیر مر گئے ان کی ذمہ داری عدالت کے کندھوں پر نہیں ڈالی جاسکتی،سیاسیمقدمات میں بہت وقت لگ جاتاہے،سیاسی کیس بہت ضروری ہیں کیوں کہ شام کو تبصرے ہونے ہوتے ہیں، عام شہری کوحق ملے یاناملے مگر سیاسی کیس پر تبصرے بہت ضروری ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ جس کاحق ہے اس کو پنشن ملے گی، بوڑھے پنشنرز نے اداروں کو اپنی جوانی دی ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے ان کاحق ادا کرے، چھٹیوں کے بعد اس مقدمے کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں گے جو روزانہ کی بنیاد پرسماعت کرے گا۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے جلد سماعت کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہاکہ عجلت سے کام نہ لیں،تحمل سے اس کیس کو سنیں گے، کوئی یہ توقع بھی نہ رکھے کہ فیصلہ ان کے ہی حق میں آئے گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کسی بشیر یا محمد حسین کے مقدمے پر تبصرے نہیں ہوتے، سب کیلئے وہی مقدمات اہم ہیں جن پر رات کو تبصرے ہونے ہوتے ہیں، یہاں کس کو عام آدمی کی فکر ہے ۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں تالیوں کی گونج سنائی دی، پینشنرز نے تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے نوٹس اس لیے لیا تھا کہ بہت سارے لوگوں کو پنشن نہیں مل رہی۔ وکیل عائشہ حامد نے کہاکہ کچھ پنشنرز کو اکتوبر1997 میں فارغ کر دیا گیا، ایک پنشنر کی پنشن 1321 روپے ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بینک کے صدر کوبلاکر1321روپے میں گھر کا بجٹ بنوا لیتے ہیں،یہ بیسٹ وے فیکٹری والے ہی لگتے ہیں جھنوں نے کٹاس راج کابیڑاغرق کیاہے ،کبھی سوچاہے کچھ خدا کا خوف ہونا چاہیے،کیا ایک 70سالہ بوڑھا شخص 1321روپے میں مہینہ بھر گزارا کر سکتا، یہ بھی ممکن ہے کہ بینک کاصدر اس بات سے واقف ہی نہ ہو، جینے کاحق سب کا ہے، بینک نہیں تویہ ریاست کی ذمہ داری ہے، بطور چیف جسٹس پاکستان آئین اورقانون کے تحت فیصلے کرنے کاپابند ہوں ۔ وکیل نے کہاکہ 25،30 سال نوکری کے بعد پنشن نہ ملنازیادتی ہے، سوشل اور اکنامک جسٹس کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عائشہ حامدآپ بھی بڑی وکیل بن رہی ہیں،آپ بھی بناکسی فیس کے یہ کیس کررہی ہیں،کوئی بڑاوکیل ایسے کیس میں سامنے نہیں آتا، اب توسنا ہے وکلا فیس بھی سوا کروڑ اڑھائی کروڑ لیتے ہیں، وکیلوں کی تنظیمیں بھی اس حوالے سے کام نہیں کر رہیں۔ کیس کی سماعت 16جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ سماعت روزانہ کی بنیاد پرساڑھے بارہ بجے ہوا کرے گی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے