پاکستان

بابا رحمت پر معذرت خواہ ہوں، چیف جسٹس

جنوری 18, 2018 4 min

بابا رحمت پر معذرت خواہ ہوں، چیف جسٹس

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ میں بینک ملازمین کی پنشن کیس کی سماعت کے دوران صدر الائیڈ بینک عدالت میں پیش ہو گئے _ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ عدالتی نوٹس پر گزشتہ روز  پیش کیوں نہیں ہوئے، آپ کو دولاکھ جرمانہ کیا تھا، کیا آپ نے جرمانہ ادا کر دیاہے  _ بنک کے صدر نے کہا کہ جرمانہ میری جیب میں ہے ادا کر دیتا ہوں_ چیف جسٹس نے کہا کہ فاطمید فاونڈئشن کوجرمانہ چندے میں دے دیں_ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے_ جواب دیا کہ میری تنخواہ ساڑھے بائیس لاکھ ہے_ چیف جسٹس نے کہا کہ گھر گاڑی اور مراعات اس سے الگ ہوں گی، پنشنرز کے لیے بھی کچھ کریں، پنشنرز کے لیے خود فیصلہ لینا ہے تو لیں، عدالت نے فیصلہ دیا تو پھر بینک کے دیوالیہ کا عذر پیش نہ کرنا _ واضح رہے کہ اس مقدمے کی سماعت گزشتہ رات سوا سات بجے تک جاری تھی جس میں چار نجی بنکوں کے صدور عدالت میں بیٹھے رہے جبکہ آج صبح ساڑھے نو بجے سے بنکوں کے صدور پھر عدالت میں موجود ہیں _ چیف جسٹس نے یو پی ایل بنک کی صدر سیما کامل سے کہا کہ انہوں نے اپنی تنخواہ درست نہیں بتائی، اگر ہم نے ایف آئی اے کو تحقیقات کے لیے کہہ دیا تو عدالت میں جھوٹ بولنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے _ چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس پر یو بی ایل کی صدر جو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھی تھیں اضطراب کا شکار ہو گئیں _
چیف جسٹس نے کہا کہ نجی بینکوں کے وکلاء بتا دیں کہ بنک مالکان معاملے پر کیا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، ہمیں ابھی بتا دیں یاپندرہ دنوں بعد بتا دیں، بینک مالکان اپنا موقف دے دیں، اس کے باوجود کچھ قانونی نکات پر فیصلہ ضرور لکھیں گے_ الائیڈ بنک کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پنشنرز کے مطالبات اور بینک مالکان کی پیشکش میں توازن ہونا چاہیے، یہ جوڈیشیل مدبری نہیں ہوگی اگر جہاز ہی ڈوب جائے _ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم فیصلہ دے کر اطلاق کر دیں تو مالکان پر مالی بوجھ پڑے گا_ وکیل نے کہا کہ عدالت پنشن منجمند کرنے اور بڑھانے کے معاملے کو بھی دیکھے _ چیف جسٹس نے کہا پنشنرز کے لیے کسی نے کسر نہیں چھوڑی، قانون کا اطلاق کیسے ہوگا نہیں معلوم، تمام وکلا نے کیس بہترین انداز میں پیش کیا _ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے ذمے واجبات بنک خریدنے والوں کے ذمے تھے  چیف جسٹس نے کہا کہ گود سے لحد تک شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، اگر مالکان نے پنشنرز سے معاملات طے کرنے ہیں تو پندرہ دن میں کر لیں، مقدمہ دو ہفتے بعد دوبارہ سنیں گے _

ایک اور مقدمے میں سپریم کورٹ نے گجرانوالہ میں ٹرسٹ کی زمین پر قبضہ کے کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ وہ بڑاجید آدمی تھا جس نے 1940 میں 99 کنال زمین تعلیمی مقاصد کے لیے دی، چیف جسٹس نے پوچھا کہ تعلیمی مقاصد کے لیے زمین دینے والے شخص کا کیا نام تھا _  ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ زمین دینے والے کا نام میاں رحمت تھا _ چیف جسٹس نے کہا پھر تو بابا رحمتا ہی ہوا _ وکیل نے کہا کہ یہ ملک بابا رحمت اور بابے رحمتے پر چل رہا ہے  _ چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت خواہ ہوں، بابا رحمت کا نام دوبارہ نہیں لینا تھا  _ ڈی سی گوجرانوالہ نے کہا کہ ٹرسٹ کی زمین کے مکمل سروے اور رپورٹ کے لیے مزید وقت دے دیں_ چیف جسٹس نے کہا کہ متبادل اور بہتر زمین دیں نہی تو زمین سے تجاوزات اٹھانے کا حکم دے دیں _ چیف جسٹس نے کہا کہ زمین پر کچی آبادی نہیں بڑی بڑی عمارتیں بن گئی ہیں_ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس وقت وزیراعلیٰ کون تھا جب ٹرسٹ کی زمین کچی آبادی میں تبدیل کر دی گئی_ کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی گئی _

دریں اثناء سپریم کورٹ میں مضاربہ سکینڈل کے ملزم کی درخواست ضمانت کی سماعت کرتے ہوئے ایک کروڑ روپے کے مچلکے پر ملزم ارشاد اللہ خان کی ضمانت منظور کر لی _ نیب کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں 11 سو گواہان موجود ہیں _ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 11 سو گواہان کی شہادتیں کب مکمل ہوں گی _ عدالت کو بتایا گیا ہے ایک سال سے زائد عرصہ لگے گا _ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ تو 3 سے 4 سال کی بات ہے،اس میں کئی سال لگیں گے،ایک سال کے عرصے میں تو اب تک صرف 50 شہادتیں قلمبند ہوئی ہیں، ابھی تو گیارہ سال لگ جائیں گے _ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر ملزم بری ہوگئے تو پھر کیا ہوگا _

دوسری جانب جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم بابر علی کو 13 سال بعد بری کر دیا ہے _ عدالت نے  ماتحت عدلیہ کے ججوں کو اعلیٰ تربیت فراہم نہ کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا_ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ ڈی ایم جی اور سی ایس ایس کے افسران کو اعلی تربیت دی جاتی ہے، ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کو اعلی تربیت کی ضرورت ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مجسٹریٹ کی غلطیوں کے باعث ملزمان کو فائدہ ہوتا ہے _

عدالت نے ملزم بابر علی کو بری کر دیا_ ملزم بابر علی پر 2005 میں ڈکیتی کے دوران 15 سالہ زاہدہ پروین کو قتل کرنے کا الزام تھا،
پاکپتن کی ٹرائل کورٹ نے ملزم کو پھانسی کی سزا سنائی، ہائی کورٹ نے سزائے موت عمر میں تبدیل کردی تھی  _

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے