متفرق خبریں

کوکین کے استعمال کی آزادی

جنوری 21, 2018 3 min

کوکین کے استعمال کی آزادی

Reading Time: 3 minutes

یاسر ملک/ دنیا نیوز

وفاقی دارالحکومت میں نوجوان ہزاروں روپے دے کر موت خریدنے لگے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا کوکین کے مہلک نشے کا شکار ہوگئے۔ دولت کے پجاریوں نے گھناؤنا دھندہ پوش علاقوں سے تعلیمی اداروں،  اور وہاں سے ہر دوسری سڑک تک پھیلا دیا ہے_ انتطامیہ اور پولیس نے آنکھیں بند کرلیں۔ دنیا گروپ کے خفیہ آپریشن نے پورا نیٹ ورک بے نقاب کردیا۔

دنیا گروپ کو کافی عرصے سے اسلام آباد میں کوکین جیسے انتہائی مہلک نشے کی کھلم کھلا فروخت کی شکایت مل رہی تھیں۔ جس پر دنیا ٹی وی نے اس نیٹ ورک کوے نقاب کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ خفیہ آپریشن کے دوران انکشاف ہوا کہ جدید ٹیکنالوجی آنے کے بعد منشیات فروش بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں اور اسلام آباد راولپنڈی میں اب منشیات فروشی کا دھندہ ٹیلی فون پر چوبیس گھنٹے چلتا ہے۔ دنیا ٹی وی کے رپورٹر نے جعلی خریدار بن کر مختلف منشیات فروشوں سے رابطوں کی کوشش کی۔ تمام منشیات فروشوں کا سب سے پہلا سوال یہی ہوتا تھا کہ آپ کو یہ نمبر کس نے دیا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مکروہ دھندے میں داخل ہونے کیلئے آپ کو کسی نہ کسی ایسے شخص کا ریفرنس لازمی درکار ہوتا ہے جو پہلے سے کوکین کی لت میں مبتلا ہو یا پھر منشیات فروشی کا دھندا کرتا ہو۔ ریفرنس ہونے کے باوجود اکثر منشیات فروشوں نے پہلی مرتبہ فون کرنے پر کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور ٹال مٹول سے کام لیتے رہے ۔ تاہم بار بار کی کوششوں کرنے کے بعد دو منشیات فروش کوکین فراہم کرنے پر تیار ہوگئے۔ دونوں ڈیلروں نے تمام ڈیلنگ ٹیلی فون پر ہی کی۔ ایک ڈیلر نے بتایا کہ ہلکے والی ایک گرام کوکین کی قیمت بارہ ہزار روپے جبکہ اچھی کوالٹی کی کوکین اٹھارہ ہزار روپے فی گرام کے حساب سے مل سکتی ہے۔ دوسرے ڈیلر نے بھی یہی ریٹ بتائے اور کہا کہ مال ایک نمبر ہے۔ پشاور والا نہیں ہے۔ وہ تو دس ہزار میں بھی مل جائے گا۔ جب ٹیم نے ڈیلر سے سوال کیا کہ اگر یہ کوکین اسلام آباد کی کسی یونیورسٹی یا کالج میں منگوانی ہو کیا وہاں مل سکتی ہے۔ اس پر ڈیلر نے کہا کہ آپ کو جہاں اور جس وقت بھی مال چاہئے مل جائے گا۔ دنیا ٹی وی کی ٹیم نے ایک ڈیلر سے معاملات طے کئے۔ منشیات فروش نے ٹیم کی موجودہ لوکیشن معلوم کی اور کہا کہ آپ سیکٹر ایف ایٹ کے پٹرول پمپ کے سامنے آجائیں۔ جب مقررہ وقت پر مقررہ جگہ وہاں پہنچ کر ڈیلر سے دوبارہ رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ اسی طرف آرہا ہے۔ راستے میں ایک بچے کو مال دینا تھا اس لئے تھوڑی دیر ہوگئی۔ چند ہی منٹوں بعد ایک موٹر سائیکل سوار جس نے ہیلمٹ پہنچ رکھا تھا دنیا ٹی وی کے رپورٹر کے پاس آکر رکھا اور نام کی تصدیق کرکے پیسوں کا تقاضہ کیا۔ جب اسے پیسے دیئے گئے تو اس نے کمال بے خوفی سے اپنی جیکٹ کی جیب سے پلاسٹک کی چھوٹی سی پڑیا نکال کر رپورٹر کو تھما دی۔ اس تمام ڈیلنگ کے دوران منشیات فروش کو نہ تو پکڑے جانے کا خطرہ تھا نہ ہی پولیس کا کوئی خوف۔ اس نے مال دینے سے پہلے تسلی سے وہیں کھڑے ہوکر نوٹ بھی گنے۔ اسی دوران جب اس ڈیلر سے بھی وہی سوال کیا گیا کہ اگر یہ مال یونیورسٹی میں صبح کے وقت منگوانا ہو تو کیا مل جائے گا۔ اس پر ڈیلر نے جواب دیا کہ بس آپ اسی نمبر پر رابطہ کرنا پھر سب کچھ بتادیا جائے گا۔ اس کے بعد موٹر سائیکل سوار وہاں سے روانہ ہوگیا۔ جڑواں شہروں کی یونیورسٹیز میں منشیات کے استعمال کی شکایات کی تصدیق کیلئے دنیا ٹی وی کی ٹیم نے چند بڑی یونیورسٹیز کا سروے کیا اور طلبہ و طالبات سے سوالات کئے۔ تمام طلباء نے یک زبان ہوکر تصدیق کی کہ یونیورسٹیز میں کھلے عام منشیات کا استعمال ہورہا ہے مگر اس کی روک تھام کیلئے پولیس یا انتظامیہ کوئی اقدامات نہیں کرتی۔ جب تمام صورتحال پر موقف جاننے کیلئے پولیس سے رابطہ کیا گیا تو افسران نے سب اچھا کی رپورٹ دی اور بتایا کہ کوکین ایک مہنگا نشہ ہے اس لئے صرف پیسے والے لوگ ہی یہ کام کرتے ہیں۔ دوسرا ماضی میں کوکین اسلام آباد میں کھلے عام مل جاتی ہے مگر اب پولیس کی سخت نگرانی کے باعث صرف چند مقامات پر چھپے طور پر بیچی جارہی ہے۔ جیسے ہی اطلاع ملتی ہے ان کیخلاف بھی فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل کوکین کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے مگر والدین کو اس کا علم نہیں ہوپاتا کیونکہ دیگر منشیات کی طرح کوکین ایک بے رنگ زہر ہے جس کی بو تک بھی نہیں ہوتی اور یہ کسی سلو پوائزن کی طرح وار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوکین دنیا کا وہ واحد نشہ ہے جو دنیا بھر کے تقریباً ہر ملک میں ممنوع ہے۔ اس لئے جب تک والدین کو اس تلخ حقیقت کا علم ہوتا ہے اس وقت تک ان کا لخت جگر ایسے مقام تک پہنچ چکا ہوتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے